بلوچستان میں مزاحمتی تحریک نہیں بلکہ بیرونی حمایت یافتہ بغاوت ہے


بلوچستان میں مزاحمتی تحریک نہیں بلکہ بیرونی حمایت یافتہ بغاوت ہے

معروف دفاعی تجزیہ نگار نے کہا ہے کہ کشمیر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں، بلوچستان میں تو کبھی ایک سو آدمیوں نے بھی جلوس نہیں نکالا لہٰذاایسے مطالبات لیکر بلوچستان اور کشمیر کا فرق یہی ہے کہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے جبکہ بلوچستان میں تحریک نہیں بلکہ بیرونی حمایت یافتہ بغاوت ہے۔

تعارف: معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب، شاندار فوجی کیرئیر کے بعد فوجی فرٹیلائزر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو بھی رہ چکے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز پر دفاعی تجزیہ نگاری اور فارن پالیسی سے متعلق مباحثوں میں اکثر شریک ہوتے ہیں۔ تسنیم نیوز نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کے ساتھ تازہ ترین موضوعات پر گفتگو کی، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

بھارتی میڈیا بارہا دھمکیاں دے چکی ہے کہ کشمیر کو بھول جاؤ اور فکر کرو اب بلوچستان اور کراچی کی

تسنیم نیوز: دہشت گردی کا ناسور آئے روز سر اٹھا رہا ہے، کونسی طاقتیں ملوث ہیں؟جنرل (ر) امجد شعیب: گزشتہ دنوں بلوچستان اور کراچی میں یہ مسئلہ سامنے آگیا ہے، پچھلے دنوں آپ نے دیکھا ہوگا کہ کراچی میں آرمی کے دو جوانوں کو مارا گیا، اسی طرح بلوچستان کوئٹہ میں بہت بڑا واقعہ (سانحہ کوئٹہ) ہوا ہے، اس لحاظ سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی ختم نہیں ہوئی اور یہ وقتا فوقتا سر اٹھا رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ ہی وہ علاقہ ہے جسے ہندوستان بہت عرصے سے تحت تاثیر قرار دے رہا ہے، کشمیر میں آپ نے دیکھا کہ بہت بڑی مزاحمت شروع ہوئی ہے، ہندوستان کے خلاف وہاں بہت نفرت ہے اور بہت ہی زیادہ مظاہرے کئے جارہے ہیں، خاص طور پر جب انہوں نے برہان وانی کی شہادت کے بعد سے، تو ہندوستان بوکھلا گیا ہے، اس کو سمجھ نہیں آرہی کہ ہوا کیا ہے، پاکستان کے بارے میں کبھی خاموش اور کبھی الزام تراشی پر اترتا ہے، چنانچہ ہمیں دھمکی بھی دی گئی اور بھارتی میڈیا میں بھی باربار کہا گیا کہ تم کشمیر کو بھول جاؤ اور فکر کرو اب بلوچستان اور کراچی کی، تو یہ ایک کھلی دھمکی ہے کہ اب ان علاقوں میں جہاں ہندوستان کو افغانستان کے ذریعے رسائی حاصل ہے، وہاں کچھ نہ کچھ ناگوار واقعات ہوتے رہیں گے۔

بھارتی جاسوسوں کا اہم مقصد عوام کو اداروں سے نالاں کرنے کے لئے فورسز اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی بدنامی ہے

تسنیم نیوز: کیا ہمارے پاس ایسے واقعات کے خاطر خواہ ثبوت موجود ہیں؟
جنرل (ر) امجد شعیب: عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اصل میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک آپ کا تجزیہ ہوتا ہے اور ایک آپ کو ثبوت حاصل کرنا ہوتا ہے، ثبوت آپ کو اس وقت چاہئے جب آپ کسی کو عدالت میں لے جانا چاہتے ہیں، سزا دلوانا چاہتے ہیں یا آپ کسی انٹرنیشنل فورم پر کوئی چیز ثابت کرنا چاہتے ہیں،  ہمارے پاس ایسے شواہد اور ایسی چیزیں موجود ہیں جن سے تجزیے میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ کون کروا رہا ہے۔ میں آپ کے سامنے ابھی ایک بات کہہ دیتا ہوں کہ جب ہم نے کلبھوشن کو پکڑا جو ایک انڈین ایجنٹ اور اس ملک کی نیوی کا سرونگ آفیسر ہے تو چونکہ وہ ایک آفیسر ہے اور سینیئر لیول کا آدمی ہے اس لئے اس سے پوچھ گچھ ہمارے لئے بہت مفید ثابت ہوئی، اسی کی بنیاد پر ہم نے چار سو کے قریب انڈین نیٹ ورک کے لوگ پکڑے جو اندرون سندھ میں کام کر رہے تھے، کراچی اور بلوچستان میں کام کر رہے تھے۔ چنانچہ اس پوچھ گچھ سے جو پیش رفت ہوا ہے وہ بہت زیادہ وسیع اور آشکار ہے لیکن ان میں سے تین نکات بتاتا چلوں جن کا عاصم باجوہ صاحب نے پریس کانفرنس میں کلبھوشن کی ویڈیو دکھانے کے دوران بھی ذکر کیاتھا، اس میں سب سے پہلا یہ کہ اس نے بتایا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کو غیر مستحکم  کیا جائے،  اندرونی عدم استحکام کے ذریعے پاکستان کی معاشی حالت کو کمزور کیا جائے، اسی پر نظر رکھیں کہ اگر معاشی حالت کمزور کرنی ہے تو چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور جو پاکستان کی معاشی حالت بہتر کرنے کے لئے ایک بہت بڑا منصوبہ ہے، کو ناکام بنایا جائے۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو سمجھو کہ ہندوستان ناکام ہو گیا۔ پس یہ ظاہر سی بات ہے کہ جو مشن کلبھوشن کو ملا ہے، اب آگے کسی اور کو ملا ہوگا۔ بھارت پاکستان میں افراتفری پھیلا کے عدم استحکام کے ذریعے معاشی ترقی کو روکنا چاہتا ہے جبکہ ہم ملک میں استحکام پیدا کرکے معاشی ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ اب اکنامک کوریڈور بلوچستان سے بننا ہے اور انڈیا کو بلوچستان میں ایجنٹ بھی آسانی سے مل جاتے ہیں، اس وجہ سے یہاں اکنامک کوریڈور کو تحت تاثیر قرار دینا ان کے لئے کافی آسان ہے۔ دوسرا ہمیں کلبھوشن کی تفتیش سے یہ پتہ چلا کہ اس کے ذمے ایسے کام لگائے گئے تھے جن کے ذریعے ہمارے فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بدنام ہوں اور پاکستانی عوام اپنے ہی اداروں سے نالاں ہوں۔ تو آپ نے دیکھا کہ انڈیا نے بلوچستان میں دھماکے کے لئے معاشرے کا وہ طبقہ (وکلاء) چنا جس کا ہماری سوسائٹی پر بہت بڑا اثر ہے۔ آپ اس کا موازنہ کریں کہ لاہور میں 73 لوگ مارے گئے، جس میں بچے اور عورتیں بھی شامل تھے، اگرچہ وہ واقعہ بھی کم گھناؤنا نہیں تھا لیکن اس پر وہ واویلا نہیں ہوا جو وکلاء کے اس واقعہ پر ہوا۔ سو آپ کے ہدف کا انتخاب بتاتا ہے کہ آپ کس مقصد کو حاصل کرنا چاہ رہے ہیں اور آپ نے دیکھا کہ کوئٹہ سانحہ کے بعد فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر تنقید بھی ہوئی۔ تیسرا اور آخری نکتہ یہ کہ اس میں یہ تھا کہ ہم (انڈیا) چاہتے ہیں کہ پاکستانی عوام میں اتنا خوف و ہراس پیدا کر دیا جائے کہ عام آدمی اپنی عمومی زندگی نہ گزار سکے اور حکومت ہمیشہ سے دباؤ میں رہے۔ اب آپ دیکھیں کہ اس واقعے کے بعد خوف و ہراس بھی پھیلا اور حکومت پر پریشر بھی بڑھا اور وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں جاکر خود بیانات بھی دینے پڑے اور اپنی صفائیاں پیش کرنی پڑیں، اجلاسوں پہ اجلاس منعقد ہوئے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ حکومت خاصے دباؤ میں آگئی ہے۔ تو یہ تینوں مقاصد کسی حد تک انڈیا نے حاصل کئے، سو آپ کو ان اہداف کا ایک تجزیے سے بخوبی پتہ چل جاتا ہے۔
دوسری طرف جو دو فوجی کراچی میں مارے گئے تھے اس معاملے میں تحقیقات بھی کافی پیش رفت کر چکی ہیں۔ کوئٹہ اور کراچی کے ان دونوں سانحات کا طریقہ کار ایک لگتا ہے، لگتا یوں ہے کہ ایک گروہ نے کارروائی کی ہے، پھر اسی گروہ نے ذمہ داری بھی قبول کی ہوگی جو گروہ ذمہ داری قبول کرتا ہے اس کو سرپرستی (Patronage ) کہاں سے مل رہی ہے یہ سادہ سی اطلاعات جو آپ وقت کے ساتھ ساتھ اکٹھی کر رہے ہوتے ہیں انہی سے پتہ چل جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی کو کہاں سے پشت پناہی حاصل ہے چونکہ پیسے کے بغیر تو چل نہیں سکتے اس لئے انہوں نے آگے اپنے ریکروٹ لوگ بھرتی کئے ہوتے ہیں جو ان کے لئے کام کرتے ہیں، جو لڑتے ہیں، ان کو وہ پچیس ہزار روپیہ مہینہ تنخواہ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے ٹی ٹی پی کے پاس کوئی خزانہ یا تیل کے کنوئیں تو نہیں ہیں، ان کو کوئی پیسہ دیتا ہے تو ان کا معاملہ آگے جاری رہتا ہے۔

داعش کا پاکستان میں وجود نہیں ہے اور اس طرح کے گروہ ویسے ہی کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں

تسنیم نیوز: داعش نے بھی کوئٹہ واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے، کیا داعش پاکستان میں نفوذ پیدا کر چکی ہے؟جنرل (ر) امجد شعیب: جماعت الاحرار نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے جو تحریک طالبان سے جدا شدہ ایک گروہ ہے۔  اب اس کی ذمہ داری تین گروہوں نے قبول کی ہے،  ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار  اور داعش، اب اگر کڑیوں کو جوڑا جائے تو جماعت الاحرار کی کارروائی لگتی ہے، داعش غالباً نہیں ہے کیونکہ یہ گروہ ویسے ہی کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے ان کی کارکردگی اور آپسی تعلق نظر آتا ہے، اس طرح انہیں پھر پاکستان دشمنوں سے پیسہ لینے میں آسانی ہوتی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جماعت الاحرار کو را کی پشت پناہی حاصل ہے۔

پاک آرمی کو بدنام کرنے کا کام اچکزئی نے انجام دیا ہے

تسنیم نیوز: کلبھوشن سے ہمارے اداروں کو کس قسم کے شواہد ملے؟

جنرل (ر) امجد شعیب: کلبھوشن کی تحقیقات سے تین نکات ملے ہیں، ان میں دوسرا نکتہ پاکستان آرمی کو بدنام کرنا ہے، وہ کام اچکزئی نے انجام دیا، دوسرا یہ کہ پاکستان آرمی اور انٹیلی جنس کے خلاف نفرت پیدا کی جائے اور  ان کی ناکامی ثابت کی جائے،  وہ کام بھی اچکزئی کرچکا ہے اور اتنا تک کہا کہ دہشت گرد آئی ایس آئی کی جانب سے تنخواہ لے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے ان باتوں کا جواب دیا اور کہا کہ ایسی باتیں ہم انڈیا سے سنیں تو اس کی مذمت کی جاتی ہے اور تم یہاں پر ایسی بات کر رہے ہو۔ اچکزئی نے کسی بھی ثبوت کے بغیر یہ باتیں کیں ہیں۔ یہاں پر بھی ایسے کردار موجود ہیں جیسے بلوچستان میں بعض لوگ ایسے ہیں جو انڈیا کے ایجنٹ بن جاتے ہیں جس طرح ہم نے کلبھوشن کے نیٹ ورک میں چار سو پکڑے ایسے لوگ معاشرے کے مختلف حلقوں میں موجود ہیں۔ اچکزئی پر یہ بھی الزام تھا کہ اس نے بہت سارے افغان مہاجرین کو پاکستانی شناختی کارڈ بنوا کر دئے،  بہت سارے افغانوں کو پاکستانی پاسپورٹ بنوا فراہم کئے اور بہت سارے افغان مہاجرین کو اپنے علاقے میں جگہ دے کر رکھا ہوا ہے۔ نادرا بلوچستان کے ہیڈ نے حکومت کو خط لکھا کہ اچکزئی ہم پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ افغان مہاجرین کو کارڈ بنا کر دیں تو کسی کے ساتھ اس کی مفاہمت  موجود ہے جس کی وجہ سے وہ یہ کام پورا کر رہا ہے۔ آپ کی حکومت شاید بڑا دل دکھا رہی ہے  اور کسی کو گرفت میں نہیں لیا جارہا۔

سیکیورٹی اداروں کی جانب سے دشمن عناصر کے خلاف عدم اقدامات کی اصل وجہ حکومت کی چند مجبوریاں ہیں

تسنیم نیوز: سیکیورٹی کے ادارے ایسے واقعات سے کیوں بے خبر رہے؟
جنرل (ر) امجد شعیب: اگر سیکیورٹی اداروں کو حکومت یہ کہے کہ اس (اچکزئی) کے بارے میں ہمیں بتاؤ تو ان کے پاس تو سب کچھ ہے۔ وہ اس آدمی کو بالکل ننگا کر دیں گے، سب کچھ بتائیں گے اس کے بارے میں لیکن چونکہ وہ بلوچستان میں حکومت کا اتحادی ہے اور اس کے ذریعے اس صوبے میں حکومت کررہی ہے اس لئے حکومت کی چند ایسی مجبوریاں ہوں گی جس کے باعث وہ اس پر ہاتھ نہیں ڈال رہے اور یہ پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ یہاں 1947ء سے آج تک ملک دشمن کسی نا کسی شکل میں چھپے رہے ہیں یا ان کو اجازت ملتی رہی ہے کہ وہ یہاں اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھیں۔ اگر آپ نے سنا ہو کہ ولی خان صاحب ہمارے خیبر پختونخوا سے لیڈر ہوتے تھے جو کہ نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ تھے، آج ان کے بیٹے اسفند یار ولی  سیاست میں ہیں۔ 1971ء میں جب پاکستان کا ایک حصہ الگ ہو گیا تو یہ صاحب (ولی خان) 1947ء سے خواب دیکھ رہے تھے کہ پاکستان کا خیبر پختونخوا کا علاقہ پختونستان بن جانا چاہئے اور اس علاقے کو پاکستان سے علیحدہ کر دیا جائے۔ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے نئے سرے سے پختونستان کے لئے بھاگ دوڑ شروع کی، انڈیا گئے، اندرا گاندھی سے جا کر ملے اور اس سے کہا کہ آپ نے مجیب الرحمان کی مدد کی ہے تو میری بھی کریں، دشمن تو دشمن ہے انڈیا فوراً تیار ہو گیا، یہ را کے اس زمانے کے چیف نے کتاب لکھی ہے، میں اس کتاب سے اقتباس پیش کر رہا ہوں۔ کتاب کے صفحہ نمبر 20 پر ہی یہ موضوع شروع ہو جاتا ہے، پھر اس نے صفحہ 90 پر بھی اسی بارے میں ذکر کیا ہے۔ انڈیا میں چونکہ پاکستانی سفات خانہ اس قسم کے معاملات پر نظر رکھتی تھی، تو طے یہ ہوا کہ آپ سویڈن میں را کے ایجنٹس سے ملیں، چنانچہ سویڈن میں ملاقات ہوتی تھی۔ وہ لکھتا ہے کہ 1977ء تک ہم ان کو ہر چیز دیتے رہے ہیں،  اندراگاندھی ان کی مدد کرتی رہی ہے جو یہی چاہتے تھے۔ تو ایسے لوگ آپ کی صفوں میں موجود ہوتے ہیں آپ ان کو محب وطن کہتے ہیں لیکن اصل میں یہ لوگ وطن کو ضرب لگا رہے ہوتے ہیں اور یہ ہمارے نظام کا بہت بڑا المیہ ہے۔

جنرل مشرف نے حکومت میں آنے کی وجہ سے ایم کیو ایم کے خلاف ثبوتوں کے باوجود کارروائی نہیں کی 
 

تسنیم نیوز:  ایم کیو ایم کے ساتھ پیش آنے والے حالیہ واقعات کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جنرل (ر) امجد شعیب: 2008ء سے پہلے جنرل مشرف کرسی پر فائز تھے، آرمی کے چیف بھی تھے، ان سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں تھی اور خاص طور پر کراچی کے بارے میں بتاؤں کہ ایم کیو ایم پر الزام لگتا ہے کہ را کے ایجنٹس ہیں، جنرل مشرف کو انٹیلی جنس نے ثبوت فراہم کئے تھے کہ یہ را سے پیسے لیتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود جنرل مشرف نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا بلکہ ان کو پروموٹ بھی کیا۔ اس زمانے میں ایم کیو ایم کو بہت پیسہ ملا اور انہوں نے بہت عیاشی کی۔ یوں لگتا ہے کہ آرمی کے جنرل وغیرہ بھی جب حکومت میں آئے تو انہوں نے بھی مصلحت کے تحت سمجھوتے کئے تاکہ حکومت چلتی رہنی چاہئے، بجائے اس کے کہ ہم کوئی ایسا قدم اٹھائیں جس سے ملک میں احتجاج کا قصہ چل نکلے۔ مجھے ذاتی طور پر اس چیز کا رنج ہے کہ مشرف نے ایسی حرکت کیوں کی؟

بلوچستان میں کوئی مزاحمتی تحریک نہیں بلکہ بیرونی حمایت یافتہ بغاوت ہے

تسنیم نیوز: کیا پاکستان میں علیحدگی کی یہ تحریکیں کارگر ثابت ہو سکیں گی؟
جنرل (ر) امجد شعیب: چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں، ولی خان خاندان اب کھل کر کام نہیں کرسکے گا، ان میں اب پھوٹ پڑ چکی ہے،  اسفندیار ولی وغیرہ کے پاس پیسہ بہت آگیا ہے،  وہ مطمئن ہیں اور ملک سے باہر زندگی گزار رہے ہیں، یہاں آکر کبھی کبھار چہرہ دکھا دیتے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر جو چیز خیبر پختونخوا میں تبدیلی لائی ہے وہ نئی نسل ہے، وہ پاکستانی ہیں، ان کے ذہن میں پختونستان نہیں ہے، وہ ان کو جوتے ماریں گے،  پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں پر، پی ٹی آئی پختونستان نہیں مانتی،  یہی معاملہ بلوچستان کا بھی ہے، کشمیر میں علیحدگی کی تحریک ہے، بلوچستان میں بھی یہی کہا جاتا تھا کہ آزادی کی تحریک ہے۔ کشمیر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں، بلوچستان میں تو کبھی ایک سو آدمیوں نے بھی جلوس نہیں نکالا۔ ایسے مطالبات لیکر بلوچستان اور کشمیر کا فرق یہی ہے کہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔ پاکستان میں بیرونی حمایت یافتہ دراندازی ہے جبکہ کشمیر میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ وہاں لاکھوں کے حساب سے لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں، پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں، پاکستان کا ترانہ گاتے ہیں، وہ آزادی کا جذبہ رکھتے ہیں، بلوچستان میں ایک علیحدہ چیز ہے، اگر بلوچستان کے لوگ بھی ایسا چاہتے تو لاکھوں لوگ سڑکوں پر ہوتے، بلوچستان میں تحریک نہیں بلکہ بیرونی حمایت یافتہ بغاوت ہے۔ اسی طرح فاٹا کا مسئلہ ہمارا اپنا تیار کردہ ہے، جب ہم نے 2001ء میں امریکہ کو راستہ دیا، ہم نے اسے لاجسٹک سپورٹ دی، اسے پارٹنر بنایا، ایئر بیس مہیا کئے جہاں سے امریکی کارروائیاں کرتے رہے لیکن امریکہ نے ہمیں دھوکہ دیا، ہماری مدد اور حمایت کی وجہ سے افغانستان جگہ بنا لی اور وہاں جاکر انڈیا کو بٹھا دیا، افغان جہاد کے دور میں لوگ باہر سے آئے تھے، یہاں آباد ہو گئے، اب انہیں نکالنے کا مسئلہ در پیش آیا ہے۔ اسی طرح اپنے لوگوں سے روس پر حملہ کرایا گیا اور امریکی حملوں کا جواب دینے سے روک دیا گیا جس پر شدت پسند ملک بھر میں حکومت اور فوج سے لڑ پڑے ہیں۔ ہم امریکیوں کو بچا رہے ہیں لیکن اپنے لوگوں کو قربان کر رہے ہیں۔ اس لئے ہمارے لوگوں میں پختونستان کی تحریک موجود نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں لیکن یہ کامیابیاں کافی نہیں ہیں، دہشت گردوں کے خلاف ملک بھر میں سنجیدگی سے آپریشن کیا جائے۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری