آل سعود کو انگریزوں نے اپنے شوم اور ناپاک مقاصد کی خاطر مرکز توحید پر مسلط کر دیا ہے


آل سعود کو انگریزوں نے اپنے شوم اور ناپاک مقاصد کی خاطر مرکز توحید پر مسلط کر دیا ہے

مجلس وحدت مسلمین کے رہنما کا کہنا ہے کہ آل سعود کو انگریزوں نے مرکز توحید پر لا کر بٹھا دیا ہے اور اس سرزمین پر مسلط کر دیا ہے تاکہ اس کو اپنے سیاسی مقاصد اور اہداف کی تکمیل کے لئے استعمال کریں۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے نمائندے نے مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ امین شہیدی سے ایک مکالمہ ترتیب دیا ہے جو پیش خدمت ہے۔

تسنیم نیوز: ہم نے دیکھا کہ اس مرتبہ حج کے موقع پر سعودی عرب نے ایرانی قوم پر پابندی عائد کی اور ایک ایرانی کو بھی حج کی سعادت سے ہہرہ مند ہونے کا موقع نہیں مل سکا، اس اقدام کو امت مسلمہ کی وحدت کے تناظر میں کیسے دیکھتے ہیں؟

علامہ امین شہیدی: سب سے پہلے اس بات کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ اللہ کی منتخب کردہ سرزمینیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے باایمان بندوں کے لئے اس سرزمین کا انتخاب کیا ہے۔ یہ مرکز توحید اور وحی ہے۔ ایسا مقام ہے جو انسانوں کو اللہ سے جوڑنے کے لئے عطا کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دین اگر آفاقی ہے تو ان مراکز کو بھی آفاقی ہونا چاہیے۔ مکہ اور مدینہ، مسجد الحرام اور مسجد نبوی ان تمام لوگوں کی مشترکہ میراث ہیں جو توحید پر یقین رکھتے ہیں، جو نبوت اور رسالت پر یقین رکھتے ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں یا سو سالوں سے اگر آل سعود کو انگریزوں نے لا کر بٹھا دیا ہے اور اس سرزمین پر مسلط کر دیا ہے تو وہ ان کے شوم اور ناپاک مقاصد تھے کہ مرکز توحید کو اللہ کے دشمنوں کے حوالے کر دیں اور اس کو اپنے سیاسی مقاصد اور اہداف کی تکمیل کے لئے استعمال کریں۔ سعودیوں نے گزشتہ سارے عرصے میں اپنی شہنشاہیت اور بادشاہت کو، اپنی کرپشن کو، ذخیرہ اندوزی اور مال اندوزی کو محفوظ کرنے اور اس کی ضمانت کے لئے اس سرزمین کے تقدس اور پاکیزگی کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔
امت مسلمہ خاموش ہے۔ یہاں تک کہ امہات المومنین(رض)، اہل بیت (ع)، اصحاب رسول (رض) اور اولیاء اللہ ان سب کے مقدس مزارات کو بھی ڈھایا گیا۔ امت تماشائی بنی رہی، شاید دل ہی دل میں برا سمجھتی رہی لیکن ان بادشاہوں اور سلاطین کے نجس اور پلید مقاصد کے مقابلے میں اٹھنے کی جرات کسی کو نہیں ہوئی، یہ چیز باعث بنی کہ ان (سلاطین) کے اندر جرات زیادہ پیدا ہوئی اور انہوں نے پھر اردگرد کے مسلمان ممالک کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا۔
یمن پر حملہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ باقی ان کے مظالم بحرین، شام اور پوری دنیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں فتنے پیدا کرنا، اسلام کا چہرہ مسخ کرنے والی دہشت گرد ترین تنظیموں اور گروہوں کی تشکیل، سرپرستی اور ان کو بے دریغ پیسہ دینا اور پوری دنیا میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا اور اسلام کا ایسا چہرہ پیش کرنا جو اسلام سے ذرہ برابر بھی میل نہیں کھاتا، یہ انہی عزائم کی تکمیل ہے جو استعمار نے انہیں سونپے ہیں۔
اس سے قبل انہوں نے شامی مسلمانوں کے حج کرنے پر پابندی لگا دی جبکہ شریعت مقدسہ کی روشنی میں انہیں کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے آنے والے حاجی پر پابندی لگا دیں۔ اس کے بعد یمنی مسلمانوں پر پابندی لگا دی گئی، اس موقع پر بھی عالم اسلام خاموش اور بے حس رہا، ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ تو اب ایرانی مسلمانوں کی باری آئی ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہے کہ سعودی مکہ اور مدینہ کو توحید کا مرکز نہیں بلکہ اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے دنیا کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ قرآن اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں بولیں کہ مکہ اور مدینہ کو کسی بھی صورت میں سلاطین کے ناپاک مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بننے نہ دینا مسلم امہ کی ذمہ داری ہے اور مسلم امہ کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

تسنیم نیوز:آل سعود نے حج پر پابندی لگائی، تو آل خلیفہ نے بحرینی مسلمانوں کو جمعہ کی نماز پڑھنے سے محروم کر دیا۔ آیت اللہ عیسیٰ قاسم کے شہر دراز میں گزشتہ دو ماہ سے جمعہ پر پابندی لگا دی گئی ہے اور دراز شہر کا محاصرہ کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور عالمی انسانی حقوق کے ادارے بھی چلا رہے ہیں لیکن آل خلیفہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، اس گھناؤنے اقدام کے بارے کیا کہنا چاہیں گے؟

علامہ امین شہیدی: دیکھیں مسئلہ پھر وہی ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ خطے کے اندر جہاں جہاں بیداری موجود ہے، اس بیداری کے خلاف سعودی کردار کیوں نظر آرہا ہے۔ چاہے شام ہو، لیبیا ہو، یمن ہو، لبنان ہو، یا پاکستان ہو یا دیگر ممالک ہوں، جہاں جہاں بیداری نظر آتی ہے۔ اس بیداری کو کچلنے کے لئے سعودیوں کا رول ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ سعودی نے مصر کے اندر اخوانیوں کی تحریک کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا اور ایک فوجی جنرل السیسی کو وہاں مسلط کیا۔ اخوان مسلمین کی حکومت کو برطرف اور مرسی کو پابند سلاسل کر دیا گیا چونکہ سعودی جانتے ہیں کہ اخوان مسلمین کا نظریہ بادشاہت کے خلاف ہے۔ رفتہ رفتہ لوگوں کے اندر شہنشاہتی اور بادشاہت کے خلاف شعور پیدا ہو رہا ہے۔
بحرین گزشتہ چند سالوں سے پرامن احتجاج کا مرکز رہا ہے۔ اس کی مثالیں بہت ہی کم ملتی ہیں کہ کسی ملک کی 80 فیصد عوام سڑکوں پر نکلے اور ایک پتہ تک نہ ٹوٹے، کسی گاڑی کو خراش تک نہ آئے، کسی کو بھی کسی طرح کی تکلیف نہ ہو اور وہ اپنے ان حقوق کی بات کریں جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔ اس کے باوجود حکومت انہیں کچلنے کی کوشش کرے اور سعودی ٹینک شہریوں کو کچلنے کے لئے میدان میں آجائیں۔ یہ ایک عجوبہ ہے۔ ایمنسٹی یا دیگر ادارے یہ سب ڈرامے ہیں۔ انہیں خریدا جاتا ہے۔ کیا اگر امریکی چاہیں تو سعودی ٹینک نہیں روکے جاسکتے؟ یمن میں ہسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری نہیں رکوا سکتے؟ لہٰذا عالمی اداروں کی ان رپورٹس کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ان انسانی حقوق کے اداروں نے بات کی ہے اور اچھا کیا ہے لیکن اُن کی ان باتوں کا اثر اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک عالمی برادری کے اندر بیداری پیدا نہیں ہوتی۔ بحرین ہو یا یمن، وہاں یہ ادارے سنجیدہ کوشش نہیں کریں گے۔ بحرین کے اندر بہرحال انہیں معلوم ہے کہ اگر آل خلیفہ کی حکومت جاتی ہے تو وہاں وہ لوگ برسراقتدار آئیں گے جو دین پسند ہیں۔ لہٰذا جمعہ نماز پر پابندی لگاؤ تاکہ عوام ایک جگہ جمع نہ ہو سکیں۔ علماء کو پابند سلاسل کرو تاکہ ان کی زبان سے بات نہ نکلے۔ تاکہ لوگ ان کے قریب نہ آسکیں لیکن آل خلیفہ یاد رکھیں کہ اس جبر کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہے۔ ممکن ہے اس وقت مشکلات اور تکالیف کا احساس ہو۔ ان تکالیف کا عرصہ انشاء اللہ کم ہو گا اور جرم کی رات ختم ہو گی۔

تسنیم نیوز:محرم الحرام کی آمد ہے، گزشتہ محرم میں لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ عزاداری کو محدود کرنے اور اس پر قدغن لگانے کی کوششیں کی گئیں۔ عزاداری کے خلاف ایف آئی آریں کاٹیں گئیں، بانیان کو جیلوں میں ڈالا گیا، ایم ڈبلیو ایم نے پنجاب حکومت کو اس حوالے سے متنبہ کیا ہے، امسال کیا امید کی جاسکتی ہے؟

علامہ امین شہیدی: آنے والا محرم کئی حوالوں سے بہت اہم ہے۔ اس وقت سعودی لابی پاکستان کے اندر تشیع کو تہ تیغ کرنے کے لئے سرگرم ہے۔ شیعہ بہر حال دہشت گردوں کے لئے سافٹ ٹارگٹ ہیں۔ اداروں کے اندر بھی اس وقت سعودی لابی تشیع کے خلاف کام کر رہی ہے۔ گزشتہ گرفتاریاں اور ایران کے ساتھ کشیدہ تعلقات یہ سب انہی کی کارروائیاں ہیں۔ آنے والے محرم میں ریاست سے ہمیں زیادہ پرامید نہیں رہنا چاہئے۔ اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہئے۔ عزاداری کی تقاریب، مجالس اور جلوسوں کو محفوظ کرنے کی خاطر خود کوشش کرنی چاہیے۔ جوان شہری دفاع کے اداروں کے ساتھ مل کر دفاع کو مضبوط بنائیں۔ گزشتہ دنوں سندھ میں پیش آنے والے واقعے میں عوام نے خودکش حملہ آور کی جیکٹ اتار کر سیکیورٹی اداروں کے حوالے کیا یعنی عوام اگر بیدار ہو تو بڑے سے بڑے دہشت گرد بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا ہمیں اپنی حفاظت کے معاملے میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے اور کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اپنی ملت کی حفاظت کے لئے میدان میں اتریں۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری