واقعۂ کربلا کی تمام تفصیلات و جزئیات بنی نوع انسان کے علاج کے لئے اکسیر اعظم ہے/ ہم شام میں اسلام اور اسلامی جمہوریہ کا دفاع کررہے ہیں/ ولیعہد نمبر 2 سعودی بادشاہ تک کو قتل کرسکتا ہے/ داعش عصر علوی کے خوارج سے بدتر ہے


واقعۂ کربلا کی تمام تفصیلات و جزئیات بنی نوع انسان کے علاج کے لئے اکسیر اعظم ہے/ ہم شام میں اسلام اور اسلامی جمہوریہ کا دفاع کررہے ہیں/ ولیعہد نمبر 2 سعودی بادشاہ تک کو قتل کرسکتا ہے/ داعش عصر علوی کے خوارج سے بدتر ہے

سپاہ قدس کے چیف کمانڈر میجر جنرل الحاج قاسم سلیمانی نے شام میں سپاہ کے شہید کمانڈر بریگیڈیئر جنرل حسین ہمدانی کی شہادت کی پہلی برسی کے موفع پر خطاب کرتے ہوئے بہت اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا جن کو ترتیب کے ساتھ نکتہ بہ نکتہ قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، سپاہ قدس کے چیف کمانڈر میجر جنرل الحاج قاسم سلیمانی کے شام میں سپاہ کے شہید کمانڈر بریگیڈیئر جنرل حسین ہمدانی کی شہادت کی پہلی برسی کے موفع پر خطاب کا متن درج ذیل ہے:

٭ بےشک محرم کے ایام اگرچہ حزن و غم کے ایام ہیں لیکن ان ایام کی معنویت ہمارے لئے اگر رمضان المبارک سے زیادہ نہ ہوں تو کم بھی نہیں ہیں۔

٭  وہ تمام دیگرگونیاں اور تبدیلیاں جو قدر کی راتوں میں معرض وجود میں آتی ہیں، محرم کی راتوں میں بھی معرض وجود میں آتی ہیں۔

٭ ہمیں فخر ہے کہ ہم مذہی [اور شیعہ] ہیں اور تشیع کی چوٹیاں تمام دیگر مذاہب سے بلند تر ہیں۔

٭ شہید ہمدانی اہل بیت علیہم السلام اور حرم حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے عشق کی راہ میں جام شہادت نوش کرگئے۔

٭ امام حسین علیہ السلام ـ جو قرآن ناطق ہیں ـ نے عروج کرکے اسلام کی حیات و بقاء کی ضمانت فراہم کی۔

٭ کربلا کے تمام واقعات ابتداء سے انتہا تک بڑے غور و تامل سے مرتب کئے گئے ہیں، [ہر واقعہ اپنے اصل مقام اور اصل وقت پر رونما ہوا ہے] اور اس کا ہر جزء اس فانی اور پلک جھپکنے میں گذرنے والی اس دنیا میں، بنی نوع انسان کے علاج کے لئے اکسیر اعظم ہے۔

٭ ہمارے زمانے کی داعش، امیرالمؤمنین علیہ السلام کے دور کے خوارج سے بدتر ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں اسیر ہونے والوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں۔

٭ داعش نے تیز دھار اور سر قلم کرنے کے لئے مخصوص چکمدار تلواریں اسیروں کے گلے پر رکھ دیں لیکن یہ افراد اپنے مذہب سے نہیں پلٹے اور یہ سب کربلا کے اثرات ہیں۔

٭ امام حسین علیہ السلام کا شعار اور نعرہ بھی اور تحریک بھی، ابتداء سے انتہا تک ایک ہی تھی اور اس میں کبھی بھی تبدیلی نہیں آئی۔

٭ کربلا اور عاشورا نے عراق اور شام کے محاذوں پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔

٭ ہمارے نوجوان آج عزائے حسینی کا لباس زیب تن کرتے ہیں، جو بہت خوبصورت رسم ہے؛ امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات نے تسلسل کے ساتھ ہمیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے، ان تعلیمات کا شعبہ اگر کل ایران [اور بعض دیگر شیعہ معاشروں] تک محدود تھا، آج اس کے دوسرے شعبے بھی ہیں، اور یمن کی انصار اللہ اور عراق کی الحشد الشعبی بھی امام حسین علیہ السلام کی پیروی کررہی ہیں۔

٭ میں نے شہید حسین ہمدانی کو شہادت سے کچھ ہی گھنٹے پہلے دیکھا، میں نے ان کے وجود میں ایک نوجوان کی سی کیفیت کا مشاہدہ کیا، وہ ایک نہایت صبر و استقامت کے مالک تھے۔ بہت زیادہ شور مچانے والوں میں سے نہیں تھے۔

٭ شام کے مسئلے میں مجھے قریب سے ان سے متعارف ہونے کی توفیق ملی، بعد میں معلوم ہوا کہ شہید ہمدانی اپنی شہادت سے چند روز ہی قبل، اپنی شہادت سے مطمئن تھے، آخری لمحات میں بہت ہشاش اور بشاش تھے اور مسکراتے ہوئے کہا: آؤ ایک تصویر ساتھ بنوائیں، شاید یہ میری آخری تصویر ہو۔

٭ شہید ہمدانی نے یہ بات کہی تو مجھے ایک شعر یاد آیا ہے:

رقص و جولان بر سر میدان کنند،                  رقص اندر خون خود مردان کنند
چون رهند از دست خود دستی زنند،           چون جهند از نقص خود رقصی کنند

وہ [شہداء] میدان میں رقص و جولاں کرتے ہیں
مرد ہی رقص کرتے ہیں اپنے ہی خون میں
جب وہ خود [نفس] سے چھوٹ جاتے ہیں تو تالی بجاتے ہیں
جب وہ کسی نقص سے چھٹکارا پاتے ہیں، تو رقص کرنے لگتے ہیں

٭ ہم شہداء کو کھو دیتے ہیں، تو تب ہی ان کی قدر و قیمت کو جان لیتے ہیں۔

٭ ہمدانی، باقری، کاظمی، علی ہاشمی اور بہت سے دوسرے شہداء کی مانند لوگ شاید ہر صدی میں ایک بار پیدا ہوں، جب ہم ان شہداء کو کھو دیتے ہیں، ایک خلا کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ جس طرح کہ مالک اشتر کی شہادت امیرالمؤمنین کے لئے تھی۔

٭ بریگیڈیئر جنرل ہمدانی صرف ایک شہید نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی ذات کے اندر ایک ڈویژن تھے، ایک صوبہ تھے جس طرح کہ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) نے شہید آیت اللہ ڈاکٹر سید محمد حسینی بہشتی کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایک ملت تھے۔

٭ شہید ہمدانی نے [آٹھ سالہ] دفاع مقدس میں تین اہم کردار ادا کئے:

1۔ انھوں نے "انصار الحسین ڈویژن" نامی تیز تلوار کی بنیاد رکھی، اور جہاں سے بھی اسلامی نظام کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اس ڈویژن کو وہیں روانہ کیا جاتا ہے۔

2۔ ابتدائے جنگ سے انتہا تک شہید ہمدانی تمام کاروائیوں میں اس ڈویژن کے سالار اور کمانڈر تھے۔

3۔ تیسرا کردار پہلے دو کرداروں سے اہم تھا اور وہ یہ کہ انھوں نے دفاع مقدس کو دلوں اور دماغوں میں جگہ دلائی اور وہ ایک فکری مدرسہ تھا شہید ہمدانی کا۔ دسوں ہزار نوجوان اس مرد کے پیچھے روانہ ہوئے، اور انھوں نے ایک ماں کی مانند ان فرزندوں کی دیکھ بھال کی اور ان کی تربیت کا اہتمام کیا۔

٭ شہید ہمدانی کی زندگی ہمارے لئے درسوں اور عبرتوں سے بھری ہوئی ہے، جنگ اختتام پذیر ہوئی تو وہ بھی اسی معاشرے میں لوٹ کر آئے، بظاہر ایک جنرل اور ایک بریگیڈیئر تھے اور گھرانہ پروان چڑھا، بچے آئے اور پوتے نواسے آئے، اور یہ چیزیں عام تر تالوں کی مانند ہوتی ہیں جو انسان کو زمین پر چھپکا دیتی ہیں، یہ ممتا ہے جس کو انسان نے انسان کے اندر ودیعت رکھا ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ ممتا انسان کا ہدف و مقصد قرار نہ پائے۔ جنرل ہمدانی ان تعلقات اور جذبات سے مغلوب نہ ہوئے اور انھوں نے انہیں ہدف قرار نہیں دیا اور وہ بریگیڈیئر جنرل ہمدانی سے "ابو وہب" بن گئے اور انصار الحسین ڈویژن کو چھوڑ کر، ایک نئے نام کی بنیاد رکھی "مدافعین حرم"۔

٭ شہید ہمدانی نے ساٹھ سال کی عمر میں حسین ترین ثمرہ کما لیا۔ انھوں نے شام میں محاذ مزاحمت پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ٭ آج کیوں پوری دنیا شام میں محاذ مزاحمت کے خلاف متحد ہوئی ہے؟ کیا ایک آمر کو ہٹانے کا مسئلہ درپیش ہے؟ نہیں! بات کچھ اور ہے۔

٭ دنیائے عرب میں بہت سے صاحب ثروت ممالک ہیں، اور صرف ایک مختصر سے دور میں انھوں نے کچھ مزاحمت کی اور اس کے بعد مصر کے انورالسادات نے اپنی تلوار مسلمانوں کی پشت میں گھونپ دی اور کیمپ ڈیویڈ معاہدے پر دستخط کئے۔

٭ تمام عرب ممالک نے ـ خفیہ یا اعلانیہ ـ صہیونی ریاست کے ساتھ رابطے استوار کئے، سوائے ایک ملک کے، جس نے اپنی سلامتی اور اپنی علاقائی سالمیت کو مسلمانوں پر قربان کیا۔

٭ بل کلنٹن کے زمانے میں طے پایا کہ شام اور صہیونی ریاست کے درمیان مصالحت کا کام پیرس میں انجام پائے، شام کے مرحوم صدر "حافظ الاسد" پیرس چلے گئے لیکن دوسرے روز صبح کے وقت اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، کیونکہ انہیں معلوم تھا صہیونی ریاست کے خلاف جدوجہد کرنے والے محاذ مزاحمت پر اس سازباز کے کیا منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں چنانچہ انھوں نے اس منصوبے ہی کو ناکام بنا دیا۔

٭ بشار اسد کے دور میں سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز شام آیا اور بشار الاسد کا ہاتھ پکڑ کر لبنان پہنچایاـ حالانکہ عبداللہ نے ہی شامی افواج کو لبنان سے نکال باہر کیا تھا، اور حافظ اسد کا مجسمہ اتروایا تھا ـ اور بشار سے کہا: بیٹا! لبنان آج کے بعد تیرے لئے، صرف ایران سے دوستی کا ہاتھ کھینچ لو۔ بشار نے انکار کردیا حالانکہ اس طرح کی سازباز اور ملی بھگت کو بڑی حصولیابی اور قومی مفاد کا نام دیا جاتا ہے۔

٭ سعودی عرب کا ولیعہد نمبر 2 [محمد بن سلمان] جو بہت جلدباز بھی ہے، اور اپنے بادشاہ [اور باپ سلمان بن عبدالعزیز] تک کو بھی قتل کرسکتا ہے، روس چلا گیا تا کہ روس شام کے مسئلے میں ثالث کا کردار ادا کرے، ملاقات میں محمد بن سلمان اور ایک شامی شخص موجود تھے، بن سلمان نے بشار الاسد کا حال پوچھا تو شامی شخص نے کہا: اصل مشکل "داعش" ہے تو بن سلمان نے کہا: "داعش" خطرہ نہیں ہے اور یہ سب ختم ہوجائے گا، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا ایران کے ساتھ تعلق ہے۔

٭ آج دشمنوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ شام محاذ مزاحمت میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور اسلامی جمہوریہ کے ساتھ اس کے دوستانہ تعلقات ہیں اور ہم شام میں صرف حکومت شام کا تحفظ نہیں کررہے ہیں، بلکہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کا دفاع بھی کررہے ہیں۔

٭ داعش اور دوسرے تکفیری ٹولے شام کے لئے نہیں بلکہ ایران کے لئے بنائے گئے ہیں۔

٭ بعض لوگوں کو وہم ہوا تھا کہ جاکر مسجد اموی میں نماز پڑھیں گے، اور ایک سلطنت قائم کریں گے، اگر ہم نہ ڈٹ جاتے اور مزاحمت نہ کرتے، تو یہ لوگ کامیاب ہوجاتے اور داعش شام میں حکومت قائم کرتی، اتنے سارے جرائم جو یہ لوگ مرتکب ہوتے رہے ہیں، اگر حکومت قائم کرتے تو کیا ہوتا؟ ایک وسیع فکر، جو پوری دنیا سے سپاہی بھرتی کرے، اور پوری دنیا کے لئے حکام کا تعین کرے، اگر حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوتی، تو خدا جانے عالم اسلام میں کیا المیہ رونما ہوتا۔ اسلامی جمہوریہ کو فخر ہے کہ وہ اس المیے کے مد مقابل ڈٹ گئی۔

٭ شام کا نظام حکومت، اسلامی جمہوریہ کی مدد سے پانج سال سے دباؤ اور محاصرے کو سہہ گیا یہاں تک کہ پوری دنیا کو اعتراف کرنا پڑا کہ تمام مسلح ٹولے دہشت گرد ہیں۔

٭ ہم نے مجاہدین شام منتقل نہیں کئے بلکہ حکومت شام کی مدد کی اور اگر شام میں ان ٹولوں کو نہ روکا جاتا تو آج پورے خطے کو داعش کا سامنا ہوتا۔

٭ تکفیریوں کو تمام کے تمام محاذوں پر کو منہ توڑ شکست ہوئی ہے یا پھر وہ شکست کھا رہے ہیں اور ان کامیابیوں میں شہید ہمدانی کا کردار بہت قابل قدر ہے۔

٭ میری رائے یہ ہے کہ شام کے عوام اپنی حکومت کی پشت پناہی کرکے ناقابل شکست ہوچکے ہیں۔

٭ آج یورپ کو اپنی سلامتی کے لئے بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے اور وہاں کی بدامنی کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے شام میں دہشت گرد ٹولوں کی مدد کی۔

٭ ہمیں اپنے رہبر کی بصیرت و حکمت اور دانائی پر سے مطمئن رہنا ہے اور ان کی قدردانی کرنا ہمارا فرض ہے، آج اگر اسلامی انقلاب نے دشمنوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے، اس کا سبب رہبر معظم کی بصیرت و دانائی ہے۔

اہم ترین ایران خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری