ایران نے پاکستانیوں کے دل جیت لئے ہیں، رئیس‌السادات


ایران نے پاکستانیوں کے دل جیت لئے ہیں، رئیس‌السادات

پشاور میں ایران کلچر ہاؤس کے سابق سربراہ رئیس‌السادات کا کہنا ہے کہ ایران نے پاکستانیوں کے دل جیت لئے ہیں اب مزید ایران کے لئے پاکستان میں ثقافتی طور پر اثر و رسوخ بڑھانے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔

پشاور میں ایران کلچر ہاؤس کے سابق سربراہ سید عبدالحسین رئیس‌السادات نے تسنیم خبر رساں ادارے سے بات چیت کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

رئیس‌السادات کا کہنا ہے کہ ایران کو پاکستان میں مزید ثقافتی اثر و رسوخ کے لئے کوششوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایران پہلے ہی پاکستانیوں کے دل جیت چکا ہے۔

ایران نے کئی سال پہلے پاکستانی عوام کے دلوں میں اپنے لئے ایسی جگہ پیدا کر لی ہے جسے اب کوئی ختم نہیں کرسکتا ہے۔

رئیس‌السادات کے کہنے کے مطابق، پاکستانی عوام ایرانیوں  سے زیادہ ایران کے بارے میں فکر مند ہیں، پاکستانیوں کو اس بات کی فکر ہے کہ کہیں ایران امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال نہ کرلے۔

پاکستانیوں کا خیال ہے کہ جس دن ایران نے امریکیوں کے مطالبات مان لئے اس دن اسلام کا جنازہ نکل جائے گا۔

تسنیم: جناب آقائے سادات پاکستان کے بارے میں ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا ایران کا میڈیا بتاتا ہے، پاکستان کے بارے میں ہمارے پاس نہایت محدود اطلاعات ہیں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایرانی میڈیا نے قریب ترین سرزمین یعنی پاکستان کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی چھوٹی سی زحمت تک گوارہ نہیں کی ہے اور نہ ہی کررہا ہے۔

سننے میں آتا ہے کہ ایران سے باہر کی دنیا میں سب سے زیادہ ایران کے طرفدار اور ایران کے ساتھ تعلق رکھنے والی قوم پاکستانی ہی ہے، ہماری خواہش ہے کہ بحث کا آغاز بھی اس کے بارے میں ہی کیا جائے۔

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کس قسم کے روابط پائے جاتے ہیں؟ اور یہ روابط کہاں سے اورکس وجہ سے معرض وجود میں آئے ہیں؟

میرے خیال میں پاکستان کے وجود کا آغاز تب ہوا جب برصغیر کے مسلمانوں نے برطانیہ کے ظلم وجبر کے خلاف باقاعدہ طور پر تحریک چلانا شروع کی کیونکہ اس وقت پاکستان ہندوستان کا حصہ تھا۔ پاکستانی مسلمانوں نے اس وقت ہی سوچ لیا کہ انگریزوں کے ظلم وجبر سے نجات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہندووں کے ظالمانہ رویوں کا بھی خاتمہ کیا جائے۔

لوگوں کے دلوں میں یہ تفکر علامہ اقبال نے ڈال دیا تھا اور قائداعظم محمدعلی جناح نے عملی طور پر تحریک کی علمبرداری کرتے ہوئے 1947 کو انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی سے ایک دن پہلے ہی دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوری پاکستان کو متعارف کروا دیا۔

اس بات کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری سجمھتا ہوں کہ پاکستان اور ہندوستان کے بعض مسلمان، تحریک پاکستان کے مخالف تھے جیسے کہ آج بھی ہیں۔ پاکستان میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو آج بھی یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ پاکستان بنا کر مسلمانوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے اگر ہندوستان سے جدا نہ ہوتے تو دنیا میں مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ ہوتا اور مسلمان اس سے کہیں زیادہ ترقی کرتے۔

تسنیم: ایرانیوں کے پاکستانیوں کے ساتھ روابط تحریک پاکستان کے آغاز سے ہی شروع ہوئےہیں یا پہلے سے ہی برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ اس قسم کے روابط پائے جاتے تھے؟

اصل میں ایران اور برصغیر کے مسلمانوں کے درمیان ثقافتی تعلقات ہندوستان میں مغلوں کی دور حکومت سے وابستہ ہیں کیونکہ ہندوستان کے مغل بادشاہوں کے ایران کے ساتھ نہایت اچھے تعلقات قائم تھے اور وہ ایرانی ثقافت سے متاثر تھے۔

پاکستانی اور ہندوستانی تحقیقاتی اداروں میں فارسی مسودات کے عظیم ذخائر موجود ہیں جو کہ اکثر گیارویں اور بارویں صدی (ھجری) سے متعلق ہیں۔ فارسی دست نوشتہ جات اور دوسرے اہم مکتوبات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان پر ایرانی ثقافت کے اثرات کب سے شروع ہوئے۔

مغل بادشاہ فارسی زبان سے نہایت لگاو رکھتے تھے اور فارسی میں ہی اشعار وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔

سادات کا کہنا ہے کہ وہ اردو زبان جو ہندوستانی مسلمانوں کی زبان سمجھی جاتی تھی، فارسی سے ہی تخلیق ہوئی ہے۔

یعنی اردو کی جڑیں فارسی سے جا ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بولی جانے والی سیکڑوں دوسری زبانیں بھی در اصل فارسی کی ہی شاخیں ہیں۔

سادت کہتے ہیں جب پاکستان آزاد ہوا تو ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو بعنوان ایک آزاد اسلامی مملکت قبول کیا اور اپنا سفیر پاکستان میں متعین کیا، اس بات کو پاکستان کا ہر ذی شعور شہری جانتا ہے اور ایران کا احسان مند ہے۔

اور اسی طرح جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو پاکستان دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے ایران کی اسلامی جمہوری حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے ایران کو  اسلامی انقلاب کی مبارک باد دی تھی۔

تسنیم: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان روابط کے نئے دروازے کھلے اور یہی خیال کیا جارہا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کے ایک دوسرے کے مزید قریب آنے کی ایک اہم وجہ اسلامی انقلاب ہی ہے۔

اسلامی انقلاب نے پاکستان پر نہایت اچھے اثرات مرتب کئے، جیسا کہ انقلاب کی وجہ سے پاکستان میں ایران کا اثر رسوخ بڑھ گیا۔

اسلامی انقلاب کے بعد ہی پاکستان میں ضیاالحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ذولفقارعلی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا، یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ایران کے ساتھ بہت ہی قریبی تعلقات تھے کیونکہ اس کی بیوی ںصرت بھٹو کا تعلق بھی ایران سے ہی تھا۔

(واضح رہے کہ نصرت1929ء ایران کے شہر اصفہان میں ایک مالدار خاندان الحریری میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک متمول ایرانی تاجر تھے۔ ان کا خاندان کاروبار کے سلسلے میں  پہلے بمبئی منتقل ہوا جو بعد میں کراچی جا بسا۔ نصرت ایک شیعہ گھرانے کی دلیر لڑکی تھیں انھوں نے اس زمانے میں پاکستان آرمی کے نیشنل گارڈ میں شمولیت اختیار کی اور بعدازاں کیپٹن کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ نصرت صبونچی کی ملاقات ذوالفقار علی بھٹو سے کراچی میں ہوئی، خاندان کے کئی لوگوں کی مخالفت کے باوجود انھوں نے 8 ستمبر1951 میں ذالفقار علی بھٹو سے شادی کر لی۔ وہ شادی کے بعد اپنے شوہر کے شانہ بشانہ سیاسی سرگرمیوں میں ان کے ساتھ رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے وزیراعظم بننے کے بعد خاتون اول کہلائیں اور مختلف ممالک کے دوروں میں ان کی شریک سفر رہیں۔ ان کے چار بچے ہوئے دو بیٹے اور دو بیٹیاں، جن میں ان کی واحد نشانی صنم بھٹو کی صورت میں زندہ ہیں۔)

میرے خیال میں پاکستان میں فوجی بغاوت ہی اسلامی انقلاب کو روکنے کے لئے کی گئی اور ضیاالحق نے پاکستان کے اعلی راہنما ذوالفقار علی کو راستے سے ہٹا کر پاکستانی قوم کے دلوں سے ایرانی محبت باہر نکالنے کی ناکام کوشش کی۔

ضیاالحق ایران کے مقابلے میں پاکستان میں خلافت راشدہ نافذ کرکے انقلاب اسلامی کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ناکام رہے۔

ضیاالحق پاکستان میں اسلامی انقلاب کے اثر ورسوخ سے بے حد خائف تھے۔ ضیاالحق کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستانی قوم کے دلوں میں انقلاب کی محبت میں کمی کے بجائے روز بروز اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ جب ایران میں جاسوسی کے جرم میں امریکی سفارت خانہ پر قبضہ کیا گیا تو پاکستان دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے ایران کے ساتھ ساتھ امریکی سفارت خانے کا گھیراو کیا۔

پاکستانی قوم کی انقلاب اسلامی کے ساتھ محبت کی بہت ساری وجوہات ہیں ان میں ایک پاکستان میں کثیر تعداد میں شیعیان حیدر کرار کا بسنا، ہندوستان کے ساتھ پاکستانیوں کی دشمنی، افغانستان پر روس کا قبضہ وغیرہ سرفہرست ہیں۔

پاکستان میں شیعہ اور سنی نہایت امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کررہے تھے اور دونوں کے دلوں میں ایران کے لئے الفتیں تھیں اور ہیں لیکن بعض استعماری طاقتوں کو یہ سب پسند نہیں ہے۔

پاکستان میں شیعہ سنی اختلافات کی جڑیں سعودی بادشاہوں اور متحدہ عرب امارات کے شیخوں سے جاملتی ہیں۔

پاکستان میں ضیاالحق کے دور میں سعودی عرب کا پاکستان میں اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کی گئی اورسعودی عرب کی بادشاہت کو ایرانی بادشاہت کے جگہ بٹھانے کی کوششیں تیز کردی گئیں۔ اس کے علاوہ عراق کے ذریعے ایران پر حملہ کروایا گیا اورپاکستان پر ایرانی اثر رسوخ کو روکنے کی کوشش کی گئی۔

میں یہاں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ ذاتی طور پر خود ضیاالحق کے کوئی اختلافات نہیں تھے لیکن سعودی عرب نے بے تحاشا پیشہ خرچ کرکے پاکستانی مسلمانوں کو ایران سے جدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور آج بھی کر رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں شیعہ، سنی فرقہ پرستی ایجاد کی گئی۔

میں ضیاء کے دور سے پہلے بھی پاکستان میں رہ چکا ہوں اس وقت اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن بعد میں مختلف وجوہات کی بنا پر دونوں مسالک کے درمیان جدائی پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں جو اب بھی جاری ہیں۔

تسنیم: پاکستان کی شیعہ برادری پر  انقلاب اسلامی کے کیا  اثرات ہیں؟ انقلاب سے پہلے شیعہ پاکستان میں اتنے منظم نہیں تھے جتنے انقلاب کے بعد ہوئےہیں، پاکستان میں شیعہ سیاسی طور پر انقلاب کے بعد ہی سامنے آئے ہیں۔

شیعوں نے انقلاب اسلامی سے درس حاصل کیا اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے ایک پرچم تلے اکھٹے ہوگئے۔

اسلامی انقلاب کے بعد پاکستانی شیعوں کی قیادت علامہ عارف حسین نے سنبھالی۔ سید عارف حسین الحسینی (المعروف شہید عارف حسینی) پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے صدر مقام پارہ چنار سے چند کلومیٹر دور پاک افغان سرحد پر واقع گاؤں پیواڑ میں 25 نومبر 1946 کو پیدا ہوئے۔

آپ کا تعلق پاڑہ چنار کے معزّز سادات گھرانے سے تھا جس میں علم و عمل کی پیکر کئی شخصیات نے آنکھیں کھولی تھیں۔

عارف حسینی ابتدائی دینی و مروجہ تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے بعض دینی مدارس جیسے جامعۃ المنتظر لاہور میں زیرتعلیم رہے اور علمی پیاس بجھانے کے لئے 1967 ء میں نجف اشرف روانہ ہوئے۔ نجف اشرف میں آیت اللہ مدنی جیسے استاد کے ذریعے آپ امام خمینی سے متعارف ہوئے ۔ آپ باقاعدگی سے امام خمینی کے دروس ، نماز اور دیگر پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔

1974میں عارف حسین حسینی پاکستان واپس آئے ، لیکن ان کو واپس عراق جانے نہیں دیا گیا تو قم کی دینی درسگاہ میں حصول علم میں مصروف ہوگئے ۔ قم میں آپ نے شہید آیت اللہ مرتضی مطہری ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ وحید خراسانی جیسے علمائے اعلام سے کسب فیض کیا ۔

آپ علم و تقوی کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ قم میں امام خمینی کی اسلامی تحریک سے وابستہ شخصیات سے بھی رابطے میں رہے چنانچہ سید علی خامنہ ای اور آیت اللہ ہاشمی نژاد کے خطبات و دروس میں بھی شامل ہوتے رہے۔ عارف حسینی کی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ کو ایک دفعہ ایران کی شاہی خفیہ پولیس ساواک نے گرفتار کیا۔

عارف حسین حسینی 1977ء میں پاکستان واپس گئے اور مدرسہ جعفریہ پارہ چنار میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیں ، اس کے علاوہ آپ نے کرم ایجنسی کے حالات بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ جب 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا تو آپ نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے ثمرات سے عوام کو آگاہ کرنے اور امام خمینی کے انقلابی مشن کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔عارف حسینی نے پاکستان کی ملّت تشیّع کو متحد و منظم کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کیں اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔

اگست 1983ء میں تحریک کے قائد علامہ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد 1984 ء میں ان کے نائب علامہ سید صفدر حسین نجفی نے پاکستان کے جیّد شیعہ علما و اکابرین کے ایما پر علامہ عارف حسینی کو ان کی قائدانہ صلاحیتوں ، انقلابی جذبوں اور اعلی انسانی صفات کی بنا پر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نیا قائد منتخب کیا۔

عارف حسینی کا دور قیادت، پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کی جد و جہد کے دور سے مطابقت رکھتا تھا ۔ چنانچہ آپ نے پاکستانی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے طویل جد و جہد کی ۔ اس سے قبل پاکستانی سیاست میں اہل تشیع کا مؤثر کردار نہیں تھا لیکن عارف حسینی نے اپنے ملک گیر دوروں لانگ مارچ کے پروگراموں ، کانفرنسوں اور دیگر پروگراموں کے ذریعے دین اور سیاست کے تعلق پر زور دیتے ہوئے اپنی قوم کو سیاسی اہمیت کا احساس دلایا ، اس سلسلے میں لاہور کی عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس قابل ذکر ہے ۔

تسنیم: پاکستان پر ایرانی انقلاب کے اثر رسوخ سے کیا فائدہ حاصل کیا گیا؟ کیا ایران نے اس موقعیت سے استفادہ حاصل کیا یا نہیں؟

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایران کو جس طرح کام کرنا چاہئے تھا وہ نہیں کرپایا؛ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایران پاکستان کے اندر پیش آنے والے کچھ مسائل کی وجہ سے کھل کر کام نہ کرسکا۔

میرے خیال میں ایران کے لئے پاکستان کے اندر کام کرنے کے مواقع آج بھی موجود ہیں کیونکہ ایران پاکستانیوں میں آج بھی مقبول ہے پاکستانی ایران کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ایرانی مسئولین پاکستان میں دہشت گردی کو بہانہ بنا کر کام کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے آگے بڑھ کر دونوں ملکوں کے عوام کو قریب کرنے کی کوششوں کو تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ایرانی عوام کو پاکستان کے بارے میں 90 فیصد اطلاعات انقلاب سے پہلے کی دی گئی ہیں، ایران میں پاکستان کے بارے میں جو مکتوبات پائے جاتے ہیں وہ بھی انقلاب سے پہلے کے ہی ہیں۔

میرے ایک قریب دوست نے مجھ سے کہا میں نے ایرانی کتاب خانوں میں پاکستان کے بارے میں مطالعہ کرنا چاہا لیکن مجھے کوئی جدید مطلب نہیں ملا جو کچھ تھا وہ انقلاب سے پہلے کا ہی تھا۔ ہمیں چاہئے پاکستان کے بارے میں  ایرانیوں کو زیادہ سے زیادہ نئے مطالب فراہم کریں۔

تسنیم: پاکستانیوں کی ایران کے ساتھ محبت کے کچھ نمونوں کا ذکر فرمائیں۔

شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ کتنے پاکستانی ایران سے محبت کرتے ہیں۔ میں نے حتی وہ لوگ جو شیعوں کو کافر سمجھتے ہیں ان سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمیں پاکستان میں بھی ایک ایران جیسا انقلاب اور خمینی جیسا رہبر چاہئے۔

پاکستانی کہتے ہیں کہ خدا نہ کرے ایران امریکہ کے ساتھ مصالحت کرے اور تعلقات قائم کرے اگر ایران نے ایسا کیا تو اسلام کا جنازہ نکل جائے گا۔ حالانکہ یہ باتیں ان لوگوں کی ہیں جو شیعوں کے بارے میں اچھے نظریات نہیں رکھتے ہیں جو شیعہ اور بریلوی ہیں ان کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔

پاکستان میں بھی ایران کے ترقیاتی کاموں کے بارے میں تبلیغات کرنے کی ضرورت ہے پاکستانی صرف حافظ، سعدی، مولوی کو ہی جانتےہیں ہمیں زیادہ سے زیادہ ایران شناسی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

کچھ سستیوں کی وجہ سے پاکستانی اسکولوں سے فارسی زبان کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

ایک زمانہ تھا پاکستانی اسکولوں میں فارسی لازمی تھی بعد میں اس کو اختیاری قرار دیا گیا اور اب اس کا مکمل طور پر خاتمہ ہوچکا ہے۔

تسنیم: ایران دنیا میں کسی بھی ملک سے زیادہ پاکستان میں سیاسی نمائندے بھیجتا ہے۔ پاکستان میں ایران کے 4 قونصلیٹ اور 9 ثقافتی مراکز ہیں اس کے باوجود کمی کہاں پر ہے؟

میرے خیال میں ہم پاکستان میں ایک تیر سے کئی شکار کرسکتے ہیں لیکن ہم نے کبھی پاکستانیوں کو اپنے قریب لانے کی صحیح معنوں میں کوشش ہی نہیں کی ہے۔

میرے خیال میں اب پاکستان میں ایران سے کہیں زیادہ ترکی فعال ہے۔ پاکستانی سنیماوں اور گھروں میں لوگ ترک فلمیں اور ڈرامیں دیکھتے ہیں لیکن ہم ایرانی ایک ڈرامہ بھی دکھانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

پاکستان میں میڈیا آزاد ہے ہم نہایت آسانی سے ایرانی فلموں اور ڈراموں کو پاکستان میں دکھاسکتے ہیں۔

حرف آخر یہ ہے کہ دونوں ممالک ثقافت، تہذیب اور مذہب کے اعتبار سے ایک ہیں۔

ہم ایک دوسرے کے مزید قریب آسکتے ہیں لیکن شرط اول یہ ہے کہ اس سلسلے میں کام کریں۔

قارئین و صارفین کرام خصوصی دستاویزی رپورٹ "ایران، جان پاکستان" کی شائع شدہ قسطیں مندرجہ ذیل لنکس پر کلک کرکے مشاہدہ کرسکتے ہیں:

«فرهنگ، سیاست، اسلامی جمہوریہ»/ خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»ــ1 » ہمالیا کے کسی قھوہ خانے میں امام خمینی کی تصویر سے لیکر خرمشہر کی آزادی کےلئے روزوں کی منت تک.

خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»ــ2 » ہم پاکستان میں بھی ایک "خمینی" چاہتے ہیں.

خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»ــ3 » ایران کے ثقافتی انقلاب کے فروغ کا بوجھ ایک 22 سالہ پاکستانی کے کندھوں پر/ «سلحشور» پاکستان میں ایرانی ثقافت کے سپاہی.

خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»-4 » پاکستان کے مسلمان ایران کے ساتھ زندہ ہیں/ ہمارا عقیدہ ہے کہ "اگر ایران نہ ہو تو ہم بھی نہ رہیں گے"

خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»-5 » جنگ کے دوران ایران کے لئے پاکستانی خواتین کے زیورات کے عطیے.

خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»-6 » پاکستان میں فارسی زبان/ ہم جہاں جاتے ہیں وہاں فارسی ضرور پاتے ہیں.

 

اہم ترین ایران خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری