پاکستان میں تمام مذہبی، ملی، ثقافتی اور نظریاتی ضروریات سے ہم آہنگ نصاب تعلیم کی تشکیل ناگزیر


پاکستان میں تمام مذہبی، ملی، ثقافتی اور نظریاتی ضروریات سے ہم آہنگ نصاب تعلیم کی تشکیل ناگزیر

اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ نے کہا ہے کہ ایک ایسا نصاب تشکیل دیا جائے جو ہماری تمام مذہبی، ملی، ثقافتی اور نظریاتی ضروریات سے ہم آہنگ ہو اور جس کے نتیجے میں ہم اپنی سوچ اور فکر کو آئندہ نسلوں تک منتقل کر سکیں۔

خبررساں ادارے تسنیم کے نمائندے کی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ سید صہیب الدین کاکاخیل سے گفتگو کا متن درج ذیل ہے:

تسنیم نیوز:پاکستان میں مخدوش تعلیمی صورتحال کی بہتری کے لئے کیا تجاویز پیش کرنا چاہیں گے؟

سید صہیب الدین کاکاخیل: اسلامی جمعیت طلبہ کے تحت گزشتہ دنوں اسلام آباد میں قومی تعلیمی سیمینار کا انعقاد کیا گیا، اس کا بنیادی مقصد یہ ہی ہے کہ ہم معاشرہ میں شعور پیدا کریں اور لوگوں کو اس بات پر قائل کریں کہ پاکستان میں بدامنی، لاقانونیت، دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری ان تمام حالات کی بنیادی وجہ پاکستان کا نظام تعلیم ہے۔ ایک تو یہاں پر تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہمارا تعلیمی نظام بدترین نظام ہے جو پاکستان کی ترقی میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے، گزشتہ دنوں سیمنار میں وزیر تعلیم نے بھی اس بات کو مانا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔ کروڑوں کی تعداد میں بچے ہیں جو سکول جانے سے محروم ہیں، اگر وہ ان رول ہو بھی جاتے ہیں تو تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی شدید کمی ہے، خصوصا سرکاری تعلیمی اداروں میں سہولیات نہیں اور کوالٹی آف ایجوکیش ناقص ہے۔

دوسرا بڑا مسئلہ یہاں پر طبقاتی نظام تعلیم کا ہے، اسٹیٹس کے لحاظ سے ادارے موجود ہیں، ان اداروں سے فارغ ہونے والوں میں کوئی فکری قدر مشترک نہیں ہے، وہ پاکستان کی فکری وحدت اور ترقی میں کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، تیسرا ہمارا نظام تعلیم کمرشلائز ہو گیا ہے، جس کے نتیجے میں ہم اس نظام تعلیم سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔

حکومت کو زبانی جمع خرچ سے باہر نکل کر اپنی ترجیحات سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ تعلیم کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ تعلیم کے لئے مختص بجٹ اور اس کی مناسب تقسیم پر توجہ دی جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سال گزرنے کے بعد مختص شدہ بجٹ ضائع ہو جاتا ہے، یہ بجٹ انتظامی معاملات اور کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تعلیم کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے، بجٹ میں اضافہ اور اس کا مناسب اور بروقت استعمال یقینی بنایا جائے۔

تسنیم نیوز: طلباء یونین پر پاکستان میں تاحال پابندی برقرار ہے، اس حوالہ سے کیا کہنا چاہیں گے؟

سید صہیب الدین کاکاخیل: ہمارا مطالبہ ہے کہ طلباء یونینز کو بحال کیا جائے، تعلیمی اداروں میں طالبعلم کو خواندہ بنانے کے ساتھ ساتھ اس کی کردار سازی پر بھی کام ہونا چاہیے، شخصیت سازی کی جائے، اس میں غیرنصانی سرگرمیوں کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے، جن کے نتیجے میں طالبعلم کے اندر موجود تخلیقی صلاحیتیں سامنے آتی ہیں، اور اس میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ان قائدانہ صلاحیتوں کو صرف سیاسی پارٹیوں کے اندر نہیں بلکہ جس شعبے میں طالبعلم جائے گا وہاں انہیں بروئے کار لائے گا، ایسی صلاحیتیوں کو نکھارنے میں طلباء یونین کا ایک بنیادی کردار ہوتا تھا، پابندی لگنے کے بعد غیر نصابی سرگرمیاں اداروں سے ختم ہو کر رہ گئی ہیں، تقریری مقابلے ہوتے تھے، مضامین نویسی کے مقابلہ جات ہوا کرتے تھے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوجوان ہماری آبادی کا ساٹھ پینسٹھ فیصد ہیں، جو حکمرانوں کے انتخاب اور حکومتوں کے چناؤ میں اپنا اہم کردار رکھتے ہیں، کیونکہ اٹھارہ سال کے نوجوان کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، اگر ہم پاکستان کے اندر جمہوری اقدار کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ طلباء یونین کو بحال کیا جائے۔

تسنیم نیوز:عالمی این جی اووز کے اشاروں پر نصاب تعلیم میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں، نصاب تعلیم سے اسلام کی روح نکال لی گئی ہے، کیا کہیں گے؟

سید صہیب الدین کاکاخیل: کسی بھی ملک کا نظام تعلیم یا نصاب تعلیم اس ملک کے مذہبی، ملی، فکری، سماجی اور اس ملک کے روایات کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے، بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آج حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ تعلیم ہماری ترجیحات میں سے ہے، اسی سے ان کی ترجیح واضح ہوتی ہے کہ نصاب تعلیم کو انہوں نے این جی اووز کے حوالے کر دیا ہے، اٹھارویں ترمیم کے ذریعے تعلیم اور دیگر اہم وزارتیں صوبوں کو دی گئیں، لیکن نصاب تعلیم ونگ وفاق کے پاس ہونا چاہیے، تاکہ وفاق پورے ملک کے لئے یکساں نصاب ترتیب دے سکے، اب اگر حکومت یہ ذمہ داری پوری نہیں کرے گی، صوبوں یا این جی اووز کے حوالے کرے گی تو اس سے ہماری قومی وحدت کو نقصان پہنچے گا، آج ہمارے قومی ہیروز پس منظر میں چلے گئے ہیں، اب صوبائی اور علاقائی لوگوں کو پروموٹ کیا جارہا ہے، اگر صورتحال اسی طرح رہی تو آئندہ دس سال کے بعد علامہ اقبال اور قائد اعظم، عزیز بھٹی شہید اور مولانا محمد علی جوہر ان جیسے اکابرین کے ناموں سے آئندہ نسل ناآشنا رہ جائے گی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ نصاب سازی کا معاملہ حکومت اپنے اختیار میں لے اور ایک ایسا نصاب تشکیل دیا جائے جو ہماری تمام مذہبی، ملی، ثقافتی اور نظریاتی ضروریات سے ہم آہنگ ہو اور جس کے نتیجے میں ہم اپنی سوچ اور فکر کو آئندہ نسلوں تک منتقل کر سکیں۔

تسنیم نیوز:آئندہ ایجوکیشن پالیسی میں حکومت کو کن باتوں کا لحاظ رکھنا چاہیے؟

سید صہیب الدین کاکاخیل: تعلیمی بجٹ میں اضافہ، یکساں نظام تعلیم اور ہمارا تیسرا بڑا مطالبہ طلباء یونین پر پابندی کا خاتمہ یہ تین بڑے ایشوز ہیں، اگر حکومت ان پر توجہ دے گی تو ہماری آئندہ نسلوں کی سمت درست ہو جائے گی، اور اگر ہم اس سمت میں چلتے رہے تو اپنے مقاصد پا لیں گے۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری