گلگت بلتستان کے شیعہ اور سنی عوام؛ ہوشیار باش!


گلگت بلتستان کے شیعہ اور سنی عوام؛ ہوشیار باش!

ایک بار پھر گلگت بلتستان میں نامرئی ہاتھ فعال ہوتے نظر آرہے ہیں اور علاقے سے امن و سکون چھیننے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کو ارسال کئے گئے مقالے میں پاکستانی کالم نگار جی ایم جعفری کا کہنا ہے کہ یوں تو مملکت خداد پاکستان کے اکثر و بیشتر تعلیمی اداروں میں مذہبی تقریبات منعقد کی جاتی رہی ہیں، اس دفعہ گلگت میں کیا خاص بات تھی کہ یوم حسین علیہ السلام پر پابندی لگا کر عاشقان امام حسین علیہ السلام کو ظلم و بربریت کے خلاف اور امن و سکون اور بھائی چارے پر مشتمل تقریب منعقد کرنے سے منع کردیا گیا؟

بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کی گئی کہ یوم حسین علیہ السلام صرف قراقرام یونیورسٹی میں اکثریت کی آڑ میں منایا جارہا ہے حالانکہ ملک کے کسی بھی کونے میں اس قسم کی کوئی تقریبات نہیں ہوتیں!

دوسرا بہانہ یہ بنایا گیا کہ اس قسم کے تقریبات میں یزیدیت مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بعض مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں!

یہ بات تو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مملکت خداد پاکستان میں اپنے آپ کو یزیدی کہلانے والا کوئی فرد نہیں ملے گا اس کے باوجود یزیدیت مردہ باد کہنے سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونا غیر قابل درک ہے۔

حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان حکومت نے نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ایسے عناصر کی آواز پر لبیک کہا جنہوں نے ہمیشہ سے اس علاقے کی امن و امان کو نقصان پہنچایا ہے۔ گلگت بلتستان کی حکومت شاید یہ بھول گئی ہے کہ اگر گلگت بلتستان میں امن قائم ہے تو شیعیان حیدر کرار کے صبر و تحمل کی وجہ سے ہی ہے، شیعوں نے ہمیشہ سے علاقے میں شیعہ سنی اتحاد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس خطے کے عوام کو آئے روز پاکستان کے کسی نہ کسی کونے سے لاشوں کے تحفے ملنے کے باوجود کبھی پاکستان کے خلاف لب تک نہیں کھولا ہے اور نہ ہی کسی بے گناہ سنی بھائی کو بے جا تنگ کیا ہے، اس کے باوجود ایک منظم سازش کے تحت شیعیان حیدر کرار کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یوم حسین علیہ السلام میں محبت بھائی چارے کا پیغام دیا جارہا ہے اور قرآن و سنت کی تعلیمات لوگوں تک پہنچائی جاتی ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بغض اہلبیت  اطہار علیہم السلام سے بھرے عناصر اس کو نعوذ باللہ یوم الفساد سے یاد کرتے ہیں اور حکومت وقت ان کی ہاں میں ہاں ملا کر شدت پسند اور شیعہ مخالف قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور یوم حسین علیہ السلام پر پابندی عائد کرکے اپنے شانے اس طرح خالی کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہے کہ پابندی جی بی حکومت نے نہیں بلکہ نیکٹا نے پورے پاکستان کے تعلمی اداروں پر لگائی ہے!

یوں حکومت باقاعدہ طور پر بعض شیعہ مخالف قوتوں کو خوش کرانے پر تل گئی اور دوسری طرف عاشقان امام حسین علیہ السلام سے سرشار نوجوانوں نے حکومتی اقدام کے خلاف پر امن احتجاج کرنا شروع کردیا، احتجاج کے شروع ہوتے ہی بعض قوتیں مسائل کو حل کرنے کا ڈونگ رچاتے ہوئے میدان میں اتریں اور حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ یوم حسین علیہ السلام اس شرط کے ساتھ منقعد ہوسکتا ہے کہ حکومت یوم فاروق یا یوم صدیق منانے کی اجازت دے!

یوں یہ مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہوتا دکھائی دیا۔ درمیان میں اچانک سے یوم فاروق کا سامنے آنا کسی سازش سے کم نہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اپنے ساتھ ساتھ کسی اور کی بھی وکالت کر رہی ہے۔

گلگت بلتستان میں سرگرم کالعدم تنظمیوں کے کارندوں نے یوم حسین علیہ السلام کو ناکام بنانے کی بھر پور کوشش کی۔ در اصل ان کا مقصد یوم حسین کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ علاقے میں خوف و ہراس پھیلانا بھی تھا اور علاقے میں ایک بار پھر شیعہ سنی فسادات کرانے کی احقمانہ کوشش کی تاہم شیعہ اور سنی علما نے ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔

گلگت بلتستان کا امن و سکون بعض عناصر کو ہضم نہیں ہو رہا ہے لہٰذا وہ کسی بھی طریقے سے اس علاقے میں فسادات کروانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں موجود شیعہ سنی نہایت امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک خاص گروہ کی طرف سے ہزار کوششوں کے باوجود اہل سنت برادری نے یوم حسین علیہ السلام کو  فرقہ وارانہ رنگ دینے سے پرہیز کیا۔ اہلسنت کی اکثریت امام حسین علیہ السلام کے دن کو منانے میں نہ صرف قباحت محسوس نہیں کرتی بلکہ ان سے عقیدت و محبت بھی رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ حالیہ محرم الحرام میں اہلسنت عوام کی جانب سے عاشورا کے موقع پر سبیلیں بھی لگائی گئی تھیں جو بعض تفرقہ پسند عناصر کو نہایت ناگوار لگیں۔

دشمن کی بے پناہ کوششوں کے باجود شیعہ سنی متحد رہے اور یوں وہ فسادات کروانے میں ناکام رہے۔

جب سازشی عناصر علاقے میں خون خرابہ کرانے میں ناکام رہے تو اب شیعہ علما اور طلبا پر بے جا مقدمات درج کروا کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔

گلگت بلتستان کے شیعہ سنی عوام کو دشمن کے چال بازیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، فسادات پھیلانے کے خواہش مند لوگ مقامی نہیں بلکہ اکثریت کا تعلق باہر سے ہوتا ہے یہ بات تجربے سے بھی ثابت ہے  کہ جی بی میں ہونے والے تمام خونی واقعات میں پس پردہ غیرمقامی افراد ہی ملوث رہے ہیں۔

سانحہ چلاس ہو یا سانحہ بابوسر، سب کے پیچھے غیر مقامی حتیٰ غیر ملکی عناصر ملوث رہے ہیں جس کی ہماری ایجنسیوں نے بھی تائید کی ہے۔ ہمارا دشمن گلگت بلتستان میں شیعہ سنی فسادات کرواکر ملک کو کمزور کرنا چاہتا ہے کیونکہ گلگت بلتستان دفاعی اعتبار سے پاکستان کے لئے نہایت اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے دیرنہ اور باوفا دوست چائنہ کی سرحدیں اسی علاقے سے ملتی ہیں۔ ایسے میں دشمن بیکار نہیں بیٹھا ہے وہ ہرممکن کوشش کرتا ہے کہ اس علاقے کو خراب کرنے کا بہترین طریقہ شیعہ سنی فسادات ہیں۔

اس بات کو شیعیان حیدر کرار اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ہزاروں جنازے اٹھانے کے باوجود ہمیشہ سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، شیعوں نے کبھی ملک اور مذہب کے خلاف سودا بازی کی ہے اور نہ کریں گے۔

شیعیان حیدر کرار نے اپنے عقائد کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملکی امن و سلامتی کا بھی ہمیشہ سے پاس رکھا ہے اور یوم حسین علیہ السلام سمیت تمام مذہبی رسومات کو پابندی کے ساتھ مناتے رہیں گے اس میں کسی قسم کا کوئی سمجوتہ نہیں کیا جائے گا۔

جی بی حکومت کو چاہئے کہ ایک خاص گروہ کو خوش کرانے کی پالیسی کو ترک کرکے گلگت بلتستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کرے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری