کابل خودکش حملہ؛ داخلی محرکات اور بیرونی سازشیں


کابل خودکش حملہ؛ داخلی محرکات اور بیرونی سازشیں

افغان طالبان نے ایسی حالت میں کابل میں اربعین حسینی کی مجلس پر ہونے والے خودکش حملے کی بھر پور مذمت کی ہے کہ داعش کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق بعض موجودہ شواہد کی بناء پر بہت کچھ عیاں ہو گیا ہے۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق،کابل میں اربعین حسینی کی ایک مجلس  پر خودکش حملہ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں 28 عزادار شہید اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں جس سے متعلق بعض ماہرین خودکش حملے کی ذمہ داری داعش پر ڈال رہے ہیں۔

افغان ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان کے دارالحکومت کابل میں عزادارن اربعین حسینی کی ایک مجلس پر خودکش حملہ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں 28 عزادار شہید ہوگئے ہیں۔

دوسری جانب طالبان نے باقرالعلوم نامی مسجد میں ہونے والے خود کش حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

بعض عناصر افغانستان میں داعش کے وجود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم افغانستان کی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں داعش کی قدمیں کافی مضبوط نہیں ہیں۔

اس صورت حال کے پیش نظر اس قسم کے خونی حملوں کو داعش کی طرف نسبت دے کر اپنے شانے خالی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، اس قسم کے حملوں کے پیچھے وہ طاقتیں کار فرما ہیں جو  افغانستان میں قوم پرستی اور فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہ رہے ہیں۔

بعض لوگ افغانستان میں ہونے والے ہر حملے کو داعش کے ذمے ڈال کر شانے خالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں در اصل ان لوگوں کا مقصد داعش کی تبلیغات ہیں اور یوں داعش کو افغانستان میں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے پیچھے سیاسی اہداف کار فرما ہیں۔

بعض سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان ''دھمزنگ''، ''کارتہ سخی''  اور آج  باقرالعلوم مسجد میں ہونے والے خونی حملے غیر ملکی ایجنسیوں کے تعاون اور برطانوی ایجنسیوں کے علاوہ کابل حکومت کے بعض مشاورین کے ایماء پر کئے گئے ہیں۔

گزشتہ روز بی بی سی فارسی نے ایک ایسی خبر شائع کی جو شبہے سے خالی نہیں تھی، بی بی سی نے لکھا تھا کہ  داعش کا سرکردہ رہنما ''ملابزرگ'' افغانستان کے صوبہ ننگرھار میں مارا گیا ہے۔ اس خبر کو حد سے زیادہ اہمیت دی گئی حالانکہ ملا بزرگ ایک غیر معروف فرد تھا۔

اس قسم کی تبلیغات کی ساری ذمہ داری بی بی سی اور رائٹرز پر عائد ہوتی ہے۔

بی سی سی کا اصل مقصد عوام کے اذھان کو آمادہ کرنا ہے کہ اب افغانستان میں داعش مضبوط ہوگئی ہے اور وارداتیں کرسکتی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی ایجنسیوں سمیت افغان صدر کے بعض چیلے سیاسی مقاصد کے لئے افغانستان کے شیعوں کو قربان کررہے ہیں۔

مسجد باقرالعلوم میں ہونے والے خود کش حملوں کی ذمہ داری داعش کی طرف سے قبول کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کچھ نامرئی ہاتھ شیعوں کے قتل غارت میں ملوث ہیں وہ اس قسم کی قتل وغارت اور ناامنی کے بہانے مزید افغانستان میں اپنے لئے جگہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری