پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا


پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا

"اور الله کی رحمت ہو اس نور پر جس سے (تمام) نور پیدا ہوئے، زمین اس کی محبت کے باعث ساکن اور آسمان اس کے عشق میں شیدا ہے۔"

خبر رساں ادارے تسنیم کو ارسال کئے گئے مقالے میں پاکستانی کالم نگار مسعود چوہدری نے بڑے سلیقے سے حضرت خاتم النبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں کہے گئے مختلف عربی، فارسی اور اردو کے معروف و مشہور شاعروں کے اشعار کا ترجمہ و وضاحت کی ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:

وجہ تخلیق کائنات کی مدح میں تمام کائنات کے شعراء نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے جن میں سے چند کے الفاظ کا سہارا میں ناچیز بھی لے رہا ہوں...

ابتداء کلام نعت حسسان بن ثابت رضی اللہ عنہہ  سے ہو جائے کہ جن سے مدحت انسانی کی ابتداء گردانی جاتی ہے آپ گویا ہوئے؛

واحسن منک لم ترقط عینی ِِ
واجمل منک لم تلد النساءِِ
خلقت مبرءاََ من کل عیب
کاَنک قد خلقت کما تشاءِِ

آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے حسین تر کوئی دیکھا نہیں گیا
آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سا جمیل بھی کسی ماں نے نہیں جنا
ہر عیب سے بری آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو  پیدا کیا گیا
گویا جیسا آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاہا ویسا ہی تخلیق کیا گیا

ہر شاعر کا اپنا ایک مزاج, اپنی ایک بحر, اور اپنی ایک انسیت ہوتی ہے. جب فارسی زبان کا مشہور و معروف شاعر خسرو گویا ہوا تو پکارا؛

نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم
نہیں معلوم تھی کیسی وہ منزل، شب جہاں میں تھا
ہر اک جانب بپا تھا رقصِ بسمل، شب جہاں میں تھا

پری پیکر نگارے، سرو قدے، لالہ رخسارے
سراپا آفتِ دل بود، شب جائے کہ من بودم
پری پیکر صنم تھا سرو قد، رخسار لالہ گوں
سراپا وہ صنم تھا آفتِ دل، شب جہاں میں تھا

رقیباں گوش بر آواز، او در ناز، من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بود، شب جائے کہ من بودم

عدو تھے گوش بر آواز، وہ نازاں تھا، میں ترساں
سخن کرنا وہاں تھا سخت مشکل، شب جہاں میں تھا

خدا خود میرِ مجلس بود اندر لا مکاں خسرو
محمدؐ شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم

خدا تھا میرِ مجلس لا مکاں کی بزم میں خسرو
محمدؐ تھے وہاں پر شمعِ محفل، شب جہاں میں تھا

اور جب ایک دیوانہ جسے مدینہ داخل ہونے سے روکا گیا لیکن دیوانے کہاں رکتے ہیں اور جامی بارگاہ رسالت مأب میں پہنچ کر  گویا ہوا؛

وصلی الله علی نورٍ کزو شد نورہا پیدا
زمیں باحُبِّ اُو ساکن فلک در عشق اُو شیدا​

ترجمہ: "اور الله کی رحمت ہو اس نور پر جس سے (تمام) نور پیدا ہوئے، زمین اس کی محبت کے باعث ساکن اور آسمان اس کے عشق میں شیدا ہے۔"

محمد احمد ومحمود، وے را خالقش بستود
ازو شد جودِ ہر موجود، وزو شد دید ہا بینا​

ترجمہ: "خالق دو جہاں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعریف محمد، احمد اور محمود جیسے اسماء سے کی ہے عالم موجودات سے جو بھی فوائد حاصل ہورہے ہیں وہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کی ذاتِ گرامی کے طفیل ہیں اور اسی طرح چشم مشاہدہ کی بصیرت بھی آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کے طفیل ہے۔"

ازو در ہر تنے ذوقے، وزو در ہر دلے شوقے
ازو در ہر زباں ذکرے، وزو در ہر سرے سودا​

ترجمہ: "انہیں کے طفیل ہر تن کو ذوق زندگی اور ہر دل کو محبت نصیب ہوئی، انہیں کی برکت سے ہر زبان کو ذکر خدا کی توفیق ہوتی ہے اور ہر سر میں سودائے محبت سمایا ہے۔"

اگر نامِ محمد را نیاوردے شفیع آدم
نہ آدم یافتے توبہ، نہ نوح از غرق نجینا​

ترجمہ: اگر حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے نام کو حضرت آدم علیہ السلام شفیع نہ بناتے تو نہ حضرت آدم علیہ السلام توبہ کو پاتے نہ حضرت نوح علیہ السلام غرقابی سے نجات پاتے۔

نہ ایوب از بلا راحت، نہ یوسف حشمت و جاہت
نہ عیسٰی آں مسیحا دم، نو موسٰی آں ید بیضا​

ترجمہ: نہ حضرت ایوب علیہ السلام کو رنج و ابتلاء سے نجات ملتی اور نہ ہی حضرت یوسف علیہ السلام جاہ وحشمت سے بہرہ ور ہوتے۔ نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسیحائی ملتی نہ ہی موسیٰ علیہ السلام کو ید بیضا کا معجزہ عطا ہوتا۔(

دو چشمِ نرگسینش را کہ مَازَاغَ الْبَصَرُ خوانند
دو زلفِ عنبرینش را کہ وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی​

ترجمہ: ان کی دو نرگسی آنکھیں بتلاتی ہیں کہ ہم ”مَازَاغَ الْبَصَرُ“ پڑھیں اور دوعنبریں زلفیں بتلاتی ہیں کہ وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی پڑھیں۔"

ز سرِّ سینہ اش جامی اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ برخواں
زمعراجش چی می پرسی کہ سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی​

ترجمہ: ان کے سینے کے راز سے اے جامی اَلَمْ نَشْرَحْ لَک پڑھ لے۔ ان کی معراج کا کیا پوچھنا کہ سبحان الذی اسریٰ"

روایات میں ملتا ہے کہ جامی کا کلام سننے کے بعد سرکار دوعالم صل اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست شفقت تربت مبارک سے باہر نکالا جسے جامی نے بوسہ دیا اور حاضرین نے اس امر کو اپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھا۔ روایت کی صحت میں جائے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند کے جس شاعر نے کمال ہی کر دیا وہ احمدرضاخاں فاضل بریلوی ہیں جنہوں نے چار زبانوں عربی, فارسی, ہندی, اور اردو کے امتزاج  سے ایک ایسا فن پارہ تخلیق دیا جو مدح گوئی میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ؛

لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا
سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں

اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ   من بیکسو طوفاں ہوشربا

منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے
بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں

یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا
کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی

لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل
تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا

آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہےآپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ )پوش(ہے
آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں

انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے،اے زلف پاک اے رحمت کے بادل
برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا

یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک
مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں
میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے

وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت
جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا

افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی
مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا

اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں
پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا

دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہے
میراے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے

اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں
میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں

بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا
ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

رضا کی شاعری نا تجربہ کار اور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے
دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی

قرآن کی آیات سے بوصیری کے قصیدہ بردہ شریف تک اور درود تاج سے عصر حاضر کے انگنت شعراء تک ایک لامتناہی سلسلہ کلام موجود ہے جسے کسی بھی طرح یہاں ضبط  تحریر بالکل بھی ممکن نہیں۔

مدح گوئی کا یہ سفر جاری و ساری ہے اور رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے گا کیونکہ اللہ رب العزت بھی اپنے محبوب نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے مدح خوانوں  میں سر فہرست ہے...... اور اس کی ذات بابرکت کے سامنے ہم نکموں کی کیا اوقات..........

اگر تحریر پسند آئی تو درود پاک کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد دوست احباب کے ساتھ شیئر فرمائیں... جزاک اللہ اور جشن عید میلاد النبی مبارک

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری