اختلاف رائے کا حق سب کو ہے لیکن توہین کسی کی بھی قابل قبول نہیں


اختلاف رائے کا حق سب کو ہے لیکن توہین کسی کی بھی قابل قبول نہیں

ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ امت مسلمہ کے مشترکہ مسائل کشمیر اور فلسطین کے خلاف احتجاج نہیں کیا جاتا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 34 ممالک کا اتحاد مخصوص اہداف کے لئے بنایا گیا ہے اور اسی لئے او آئی سی، عرب لیگ متنازعہ ہوچکی ہیں اس صورتحال میں اگر تمام قوتیں فیصلہ کریں کہ بحیثیت پاکستانی سب کو اختلاف رائے کرنے کا حق ہے لیکن کسی کی توہین کرنے کا حق حاصل نہیں ہے تو عالمی سطح پر اتحاد ممکن ہے۔

تسنیم خبر رساں ادارہ: سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں، سرگودھا سے تعلق ہے، دو بار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر  جبکہ ایک بار متحدہ طلباء محاذ کے صدر رہ چکے ہیں۔ سیاسی موضوعات اور مشرق وسطی کے حالات پر خاص نگاہ رکھتے ہیں ان سے تسنیم نیوز نے مختصر انٹرویو کیا جو حاضر خدمت ہے:

تسنیم:کیا حلب میں تکفیریوں کی شکست کے بعد پاکستان میں انتقامی جذبے کو  ابھارنے  کی کوشش کی جارہی ہے؟

ناصر شیرازی: یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ایک منظم ایجنڈا کے تحت شام کے مسئلہ سے سوء استفادہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ حلب میں تکفیریوں کی شکست کے بعد سوشل میڈیا پر جھوٹی ویڈیوز اور جعلی تصویریں جاری کرکے ایک خوف کی فضاء قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کو فروغ دینے میں ملوث شخصیات نے بھی ایسی ویڈیوز ریکارڈ کروائی ہیں جس میں انہوں نے شام کے اس قتل عام کو انتقامی جذبے میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ سوشل میڈیا کے علاوہ حلب کے لئے احتجاجی سیمینارز وغیرہ منعقد کئے گئے ہیں یہ سب ایک منظم ایجنڈا کے تحت پاکستان میں فرقہ وارانہ کیفیت پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ مقبوضہ علاقے جب داعش کے پاس تھے تو انہوں نے چھ سال قتل عام کیا زندگی کے دروازے بند کر دئے گئے تو ان کی طرف سے ایک بیان بھی جاری نہیں کیا گیا اب جبکہ داعش شکست سے دوچار ہوئی ہے ان کا اس طرح سے بولنا یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان میں داعش کے ہمدرد موجود ہیں اور فرقہ وارانہ گروہوں میں بھی یہ کیفیت پائی جاتی ہے جس کے تحت پاکستان میں منافرت پھیلانے کی کوشش کریں گے۔

تسنیم: اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان کی حکومت کو کیا کردار ادا کرنا ہوگا؟

ناصر شیرازی: پاکستان کی حکومت خاموشی کی کیفیت سے اس صورتحال کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کرے گی۔ پاکستان کے وزارت خاجہ کی لائن سعودی عرب کی حمایت کرتی ہے سعودی عرب نے شام میں عسکریت کو رواج دیا بغاوت کا آغاز کروایا تو یقینی طور پر اس کے پاکستان پر اثرات ہیں اس لئے حکومت کا قدرے جھکاؤ شام کے باغی گروہ اور سعودی عرب کی طرف ہے لیکن دوسری جانب پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے سوات جیسے علاقوں پر دہشت گردوں نے قبضہ کیا ہوا تھا جس کو پاکستان نے آزاد کروایا۔ پاکستان اس بات کا ادراک کرچکا ہے کہ دہشت گردی کی حمایت کرنے کے کیا اثرات ہوتے ہیں اس تمام صورتحال پر پاکستانی کی حکومت خاموش تو ہے لیکن دہشت گرد فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

تسنیم: پاکستان میں مذہبی شناخت پر قتل و غارت کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟

ناصر شیرازی: پاکستان میں کسی کو قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہیے اور جو عناصر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کو نشان عبرت بنا یاجائے۔ پاکستان میں موجود تمام طبقات کو بحیثیت پاکستانی سب کو اختلاف رائے کرنے کا حق ہے لیکن کسی کی توہین کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ہم عمومی طورپر دیکھتے ہیں کہ جھوٹی کہانیوں کی بنیاد پر مختلف طبقات کے خلاف ایک فضاء بنائی جاتی ہے جس سے پاکستان و اسلام کا امیج خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا ماحول بنایا جائے جس میں اختلاف رائے کی گنجائش موجود ہو اور پاکستان میں آئین کی بالادستی اور ریاستی ادارے اپنا کردار ادا کریں تو دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

تسنیم: یمن، عراق، شام، فلسطین، کشمیر میں مسلمانوں پر جاری مظالم کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

ناصر شیرازی: فرقہ وارانہ بنیاد پر ہم آہنگ مسالک کی مدد سے اس کو روکنا چاہے تو یہ ممکن نہیں جیسا کہ مسلم ممالک کا ایک الائنس بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ تھیوری کی بنیاد پر ایک اچھا قدم تھا لیکن عملی طور پر فرقہ وارانہ  بنیاد پر قائم کیا گیا۔ جو ممالک فرقہ واریت کا شکار ہیں ان کو شامل نہیں کیا جاتا اس عمل سے بھی یہ سلسلہ جاری ہے مسلم امہ کے مشترکہ دشمن کے خلاف سٹینڈ نہیں لیا جاتا۔ امت مسلمہ کے مشترکہ مسائل جیسا کہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین جو حقیقی اور بنیای مسائل ہیں، کے خلاف احتجاج نہیں کیا جاتا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ 34 ممالک کا اتحاد مخصوص اہداف کے لئے بنایا گیا ہے اسی لئے او آئی سی، عرب لیگ متنازعہ ہوچکی ہے اور امت مسلمہ مزید تقسیم ہوگئی ہے اس صورتحال میں اگر تمام قوتیں فیصلہ کریں کہ بحیثیت پاکستانی سب کو اختلاف رائے کرنے کا حق ہے لیکن کسی کی توہین کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ہم نے تمام مظلومین کی حمایت اور ظالمین کی مخالفت کرنی ہے تو عالمی سطح پر اتحاد ممکن ہے۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری