ترکی نے ہمیشہ سے پاکستان کو حسن نیت سے دیکھا ہے/ بین الاقوامی امور میں پاک ترک کا ایک ہی موقف + تصاویر


ترکی نے ہمیشہ سے پاکستان کو حسن نیت سے دیکھا ہے/ بین الاقوامی امور میں پاک ترک کا ایک ہی موقف + تصاویر

ایران کے شہر مشہد میں ترک قونصل جنرل کے ساتھ گفتگو کے دوران تاریخی روابط، پاک ترک اسکولز، ناکام ترک بغاوت، پاک افغان تعقات سمیت ترک صدر اردوغان کے حالیہ پاکستان دورے جیسے موضوعات زیر بحث آئے۔

تسنیم نیوز کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے ایران کے شہر مشہد میں ترک قونصل جنرل "مہمت (محمد) دوغان" نے پاکستان کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید بڑھانے کی تاکید کی۔ ان سے کی گئی گفتگو کا متن من و عن پیش خدمت ہے:

تسنیم: ماضی میں پاک-ترک تعلقات کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟

مہمت دوغان: 1947 سے اب تک پاک ترک تعلقات نہایت خوشگوار اور دوستانہ رہے ہیں، بلکہ یوں کہوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات برادرانہ رہے ہیں۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران یورپی ممالک نے ترکی کا ہر طرف سے محاصرہ کیا تھا اور ترکی کوسخت مشکلات کا سامنا تھا، ترک قوم اس مشکل گھڑی میں پاکستانی فوج کی امداد کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ 

اگرچہ اس وقت پاکستانی قوم ہندوستان میں شامل تھی لیکن جس جوش و جذبے کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں (پاکستانیوں) نے ترکوں کی مدد کی۔ ترک قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی، یہاں تک کہ پاکستانی خواتین نے اپنی طلائی زیورات تک فروخت کرکے ترک قوم و ملت کی مدد کی جو ناقابل فراموش ہے۔ جب جمہوریہ ترکی کی بنیاد رکھی گئی تو پاکستانی قوم نے بھی اپنے لئے ترکی کو نمونہ قرار دیا۔

1947 میں جب اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا تو ترکی پاکستان کو تسلیم کرنے والے پہلے ممالک میں شامل تھا، اس وقت سے لیکر اب تک دونوں ممالک کے تعلقات دوستانہ اور برادرانہ ہیں، بین الاقوامی سطح پر جہاں پاکستان کھڑا ہوتا ہے ترکی بھی پاکستان کے ساتھ ہی ہوتا ہے، ہمیشہ سے ترکی نے پاکستانی مؤقف کی حمایت کی ہے اور کرتا رہے گا۔

2010 کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کے 4 اجلاس منعقد کئے گئے جن میں دونوں ممالک کے وزراء نے مختلف زاویوں سے تعلقات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا اور 51 معاہدوں پر دستخط کردئے گئے۔

اس کے بعد کشمیر کا مسئلہ ہے اگر آپ پوچھنا چاہتے ہیں تو میں جواب دینے کےلئے تیار ہوں۔ ابھی یا بعد میں؟

تسنیم: میں کشمیر کے بارے میں ہی سوال کرنا چاہ رہا تھا لیکن آپ نے پہل کردی تو بسم اللہ بتائے کشمیر کے بارے کیا کہنا چاہیں گے؟

مہمت دوغان: ترک خارجہ پالیسی میں کشمیر کے مسئلے کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے، ہم مسئلہ کشمیر کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں، ہم سجمھتے ہیں کہ دنیا کو اہل کشمیر کی بات پر توجہ دینی چاہئے، پاک بھارت سرحدوں پر پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے ہمیں بھی پریشانی ہوتی ہے، ترکی لائن آف کنٹرول پر پیش آنے والے واقعات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

ہماری خواہش ہے کہ پاکستان اور ہندوستان تمام تر متنازعہ مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کریں، ترکی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہے۔ ترکی نے ہمیشہ سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی حمایت کی ہے اور آئندہ بھی کرتا  رہے گا۔

مجھے امید ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہوگا اور کشمیر میں امن و سکون کا راج ہوگا۔

تسنیم: ترک صدر کی سربراہی میں پاکستان کا دورہ کیا گیا، دورے کے کیا ثمرات تھے؟

مہمت دوغان: جہاں تک میرے علم میں ہے اس دورے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ فتح اللہ گولن کے دہشتگرد گروہ سے تعلق رکھنے والے بعض کارکن جن کا ناکام ترک بغاوت میں عمل دخل تھا، پاکستان میں موجود تھے اور ہمارے دوست اور برادر ملک نے ان کو ملک بدر کرنے کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے ہیں، اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی سطح پر کئی معاہدے بھی طے پائے ہیں، تاہم اس کے بارے میں دنوں ملکوں کے سفارت خانے بہتر جانتے ہیں۔

پارلیمنٹ میں پاکستانی صدر نے جوباتیں کیں ونہایت دوستانہ تھیں۔ ترک قوم میں اس کا بڑا اچھا تاثر ملا، پاکستانی پارلیمنٹ کے ارکان اپنے ہاتھوں کو میز پر مار رہے تھے تو ہمارے نمائندوں نے سوچا کہ یہ لوگ اعتراض کررہے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں اس قسم کا کوئی رواج نہیں ہے تاہم معلوم ہوا کہ پاکستانی ارکان پارلیمنٹ خوشی اور تائید میں ایسا کررہے ہیں۔

تسنیم: آپ نے پاکستان میں گولن کے حامی دہشت گردوں کی بات کی تو کیا پاکستان میں  گولن کے مدارس ترکی کے کہنے پر بند کردیے گئے؟

مہمت دوغان: ہاں، پاکستان میں گولن کی سرپرستی میں چلنے والے تمام مدارس کو وقتی طور پر بند کردیا گیا تاہم حکومت نے پاکستانی طالب علموں کی مشکلات کے پیش نظر ان مدارس کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور پہلے کی طرح تمام اسکولوں کا نظام جاری رہےگا، صرف اسکول کے اسٹاف کو تبدیل کیا جائے گا، البتہ مجھے اس کے بارے میں زیادہ تفصیلات کا پتہ نہیں ہے۔

تسنیم: میں ایک سوال ترکی میں ہونے والی بغاوت کی کوشش کے بارے میں پوچھنا چاہوں گا، اس وقت ترکی کی اندرونی حالت کیسی ہے، ہر روز دھماکے دہشت گردی، یہ سب کیا ہے؟

مہمت دوغان: بغاوت کی کوشش کرنے والوں نے سرکاری اسلحہ (جو کہ ان کے پاس ایک امانت تھی) سے لوگوں پر گولیاں چلائیں جس کی وجہ سے ہر ترک کو نہایت تکلیف ہوئی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ بغاوت کی کوشش میں زخمی ہونے والوں کے زخموں پر مرھم رکھی جائے اور ترکی عدالتوں نے کئی ایک مجرموں کو سزائیں بھی سنائی ہیں اور مجھے امید ہے کہ تمام مجرمین کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

تسنیم: ترکی پاکستان کے ساتھ افغانستان کے بارے میں کس قسم کا تعاون کررہا ہے؟

مہمت دوغان: 2007 میں ترکی کے کہنے پر (افغانستان، پاکستان اور ترکی) سہ فریقی اجلاس منعقد کیا گیا اور افغانستان کے بارے میں کئی اجلاس بلائے گئے اور ہمیں خوشی ہے کہ اجلاس کامیاب رہے اور دنوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ برقرار ہوا ہے اور مذاکرات کا عمل جاری ہے۔

دہشت گردی کے مسئلے میں افغانستان اور پاکستان کا ایک دوسرے سے تعاون نہایت ضروری ہے کیونکہ دہشت گردی نے دونوں ممالک کو سخت مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ دہشت گردی کے مسئلے میں کبھی ترکی نے پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا ہے۔ ترکی ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور رہے گا۔

تسنیم: افغانستان میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا آپ افغان طالبان کے بارے میں روس کے موقف کی تائید کرتے ہیں؟

مہمت دوغان: یہ موضوع ہمارے لئے بہت دور لیکن دہشت گردی کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردوں کے تمام گروہوں کا خاتمہ ہونا چاہئے، دونوں ممالک دہشت گردی کی ناسور سے پاک ہونے چاہئے۔

تسنیم: سعودی عرب کی بنائی ہوئی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت  کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟

مہمت دوغان: اس اتحاد کے بارے میں کوئی خاص تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری