پاکستان میں انتشار، بدامنی، اور عدم برداشت کا کلچر فروغ پا رہا ہے


پاکستان میں انتشار، بدامنی، اور عدم برداشت کا کلچر فروغ پا رہا ہے

جمعیت علماء اسلام (ف) کی اقلیتوں کے لئے مختص سیٹ پر تیسری دفعہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے والی آسیہ ناصر کا کہنا ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں جو انتشار، بدامنی، اور عدم برداشت کا کلچر فروغ پا رہا ہے، اس کا قلع قمع کرنے کے لئے مختلف مذاہب کی مذہبی اور سیاسی لیڈرشپ اور سول سوسائٹی کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تسنیم خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ دنوں وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام قومی کانفرنس برائے بین المذاہب ہم آہنگی کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد اور زعماء کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

اس موقع پر جمعیت علماء اسلام (ف) کی اقلیتوں  کے لئے مختص سیٹ پر تیسری دفعہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے والی آسیہ ناصر کا تسنیم نیوز کے نمائندے سے گفتگو کے دوران کہنا تھا: بہت ہی خوش آئند ہے، گزشتہ چار سالوں سے ایسے سیمینارز اور کانفرنسز کا سلسلہ جاری ہے، چونکہ میں خود اقلیتوں کے کمیشن کی ممبر ہوں، اور ان تمام کانفرنسز کا حصہ رہ چکی ہوں، تو اس وقت ہمارے معاشرے میں جو انتشار، بدامنی، اور عدم برداشت کا کلچر فروغ پا رہا ہے، اس کا قلع قمع کرنے کے لئے اس طرح کی کانفرنسز بہت ضروری ہیں، اور مختلف افکار کے حامل لوگوں کو اور مختلف مذاہب کی مذہبی اور سیاسی لیڈرشپ کو اور سول سوسائٹی کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر سوچ بچار کیا جائے کہ آخر کیوں ہمارا معاشرہ بگاڑ کی طرف جارہا ہے، اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کے عنصر سے نمٹنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ اس طرح کی کانفرنسز زیادہ سے زیادہ ہوں، اور مذہبی امور کی وزارت اور سردار یوسف کو مبارکباد پیش کرتی ہوں، ایک کامیاب کانفرنس کا انعقاد وفاقی دارالحکومت میں کیا گیا۔ اس سے قبل ایسی کانفرنس سندھ، پنجاب، کے پی اور بلوچستان میں بھی ہو چکی ہیں۔

تسنیم نیوز: آپ تیسری مدت کے لئے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں پارلیمنٹ کے فلور پر کیا اہم اقدامات اٹھائے، بیان کیجئے گا؟

آسیہ ناصر:جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میرا زیادہ فوکس پاکستان میں بسنے والے غیرمسلم لوگ ہیں، یا اقلیتیں ہیں، تو ضروری تھا کہ میں ان کے حقوق کی بات کروں، چونکہ آئین پاکستان اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ یہاں پر بسنے والے تمام لوگوں کو بلاتفریق رنگ، مذہب و نسل ان کو برابری کے حقوق ملیں گے۔ لیکن کہیں کہیں ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ ناانصافیاں شروع ہو جاتی ہیں، اور اکثر اکثریت کے ہاتھوں اقلیت کے حقوق پامال ہو جاتے ہیں۔ تو پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ اقلیتیں اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں، اور میں ان کی آواز بن کے گزشتہ تین ادوار سے پارلیمنٹ میں موجود ہوں۔ اور آواز بلند کر رہی ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں اور انہیں تکلیف پہنچ رہی ہے۔ تو ضروری ہے کہ حکومت اس پر توجہ دے۔ اور گزشتہ کئی ادوار میں ہم نے دیکھا کہ گزشتہ حکومتوں اور موجودہ حکومت نے کئی اہم اقدامات اٹھائے بھی ہیں، جیسے سینیٹ میں ہماری نمائندگی، پانچ فیصد کوٹے کا اقدام اور اسی طرح میرا اپنا ایک بل کافی عرصے سے پینڈنگ پڑا ہے اور اس جدوجہد میں ہوں کہ جس میں میں نے کہا ہے کہ ہماری نمائندگی پارلیمنٹ میں موثر نہیں ہے، ہمارا تعداد بہت ہی کم ہے، ہماری سییٹیں بڑھانے کی ضرورت ہے، اس کے لئے میرا بل لاء کمیٹی نے پاس کر دیا اور اب وہ بل الیکٹرورل ریفارم کمیٹٰی کے پاس ہے، چونکہ جب ہماری تعداد آبادی کے تناسب سے ہوگی تب ہی ہمارے لوگوں کو اس کے ثمرات ملیں گے۔

تسنیم نیوز:اقلیتوں پر بہت سے حملے ہوئے، مذہب کی جبری تبدیلی بھی ان میں سے ایک ہے تو کیا آپ نے اس حوالے سے کوئی قانون سازی عمل میں لائی؟

آسیہ ناصر: سندھ میں اس حوالے سے قانون سازی عمل میں لائی جا چکی ہے، جسے مسترد کیا گیا ہے۔ حالانکہ اگر غور کیا جائے تو مسئلہ موجود ہے، اگر لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں تو صرف بچیاں ہی کیوں کر رہی ہیں، مرد کیوں نہیں کر رہے، صوبہ سندھ اور پنجاب میں کرسچن کمیونٹی کے ساتھ خاص طور پر بہت زیادہ زیادتی ہوتی رہی ہے، اس پر علمائے کرام نے اعتراض کیا کہ عمر کی حد طے نہ کی جائے، اب اگر بارہ تیرہ سال کی بچی کو جبراً مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے، تو بارہ تیرہ سال کی بچی کچھ سمجھنے سے قاصرہوتی ہے، اور کسی مذہب کو سمجھ نہیں سکتی، تو میں یہ کہوں گی کہ ہمیں دوبارہ اپنے دین کیطرف جانا چاہیے، اور یہ دیکھنا چاہیے کہ مذہب اسلام اور قرآن شریف اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری