امریکا، ایران کشیدہ تعلقات کی تاریخ (حصہ اول )


امریکا، ایران کشیدہ تعلقات کی تاریخ (حصہ اول )

عالمی سیاست میں مشرق وسطیٰ کو ایک خاص اہمیت و حیثیت حاصل ہے جبکہ مشرق وسطیٰ کا اہم ترین، پر امن ترین اور با اثر ترین ملک ایران ہے۔ عالمی سیاست میں اہم ترین اور طاقتور ترین ملک ہونے کے باوجود امریکا جس ایک ملک کے ہاتھوں پچھلے اڑتیس برسوں سے ذلیل و رسوا ہوتا آیا ہے، واحد ملک جمہوری اسلامی ایران ہے۔

خبر ادارہ تسنیم: ایران میں اسلامی انقلاب اس لئے برپا کیا گیا کہ ایران عوام امریکی سامراج اور اس کے پٹھو رضا شاہ پہلوی کی حکومت سے نالاں تھے۔ ایرانی عوام امریکا کی ایران میں مداخلت سے آزادی اور اپنی غیرت ملی و اسلامی پر مبنی خود مختاری کی بحالی چاہتے تھے۔ انقلاب کے بعد ایران کی حکومت اورریاستی نظام نے ایک ایسا بیانیہ(نیریٹیو) مرتب کیا جو دنیا کے سیاسی مدبرین کے لئے سرپرائز سے کم نہیں تھا۔ انقلابی ایران نے طول تاریخ میں ایران میں امریکا کے سامراجی کردارکی وجہ سے اسے شیطان بزرگ قرار دیا۔

انقلابیوں نے دنیا کو بتایا کہ امریکا کا سفارتخانہ در حقیقت جاسوسی کا اڈہ ہے اور وہاں سے اس الزام کے دستاویزی ثبوت بھی برآمد کرکے دنیا کے سامنے پیش کردیے۔

اس انقلاب نے نہ صرف ایران کے اندر امریکا کو ذلیل کیا بلکہ لبنان میں بھی امریکی افواج اور سی آئی اے کے افسران محفوظ نہ رہے۔ وہاں بھی ان پر ایسے حملے ہوئے جو دنیا بھر میں پہلے کبھی کہیں نہیں ہوئے تھے۔

ایران نے امریکا کے لاڈلے اسرائیل کو ناجائز اور جعلی ریاست قرار دے کر فلسطینیوں کو ایران میں سفارتخانہ کھولنے کی اجازت دے دی اور اسرائیل کے خلاف مسلح فلسطینی جدوجہد کی حمایت اور مدد کرنا شروع کردی۔

امریکی سامراج نے ملت ایران کے ہاتھوں ذلت و رسوائی کے بعد اپنی اصلاح کی بجائے اپنے علاقائی مہروں کے ذریعے ایران کو سزا دینے کی ٹھانی۔ خلیج فارس کے عرب ممالک اور خاص طور پر عراق اور ان سبھی پر مشتمل اعلانیہ اتحاد کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کرکے امریکا نے ایران کے ساتھ دوطرفہ تلخی و کشیدگی میں پورے خطے کو جھونک دیا۔ جعلی ریاست اسرائیل پس پردہ ایران کے خلاف امریکی اتحاد میں شامل رہی۔

اس پس منظر میں امریکا میں 6صدور کی حکومتیں آئیں اور سب نے ایران کے خلاف کبھی اعلانیہ اور کبھی خفیہ اقدامات کئے لیکن ایران اپنے امریکا مخالف موقف سے دستبردار نہیں ہوا۔ اب یہ تعلقات انقلابی ایران کے حساب سے ساتویں امریکی صدر کے دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ پوری دنیا کی نظریں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ایران پالیسی پر مرکوز ہیں۔

دنیا کے سیاسی مدبرین، صحافتی بڑے، دانشوران وغیرہ سرگوشیوں میں سوال نما رائے کا اظہار کررہے ہیں کہ کیا ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل سے امریکا دستبردار ہوجائے گا؟ کیا ٹرمپ حکومت ایران کے خلاف فوجی اقدامات کرے گی؟ کیا مزید پابندیاں لگیں گی یا ایران کو اس کی انقلابی پالیسی کی سزا کسی اور طریقے سے دی جائے گی؟ ایران کے بارے میں ٹرمپ صدارت کے دوران امریکا کی پالیسی کیا ہوگی، اس کو سمجھنے کے لئے امریکا کے سیاسی مدبرین اور خواص کا مائنڈ سیٹ سمجھنا ہوگا۔

ایران کے بارے میں ان کی حتمی رائے انہی کی زبانی یہاں نقل کی جارہی ہے۔ امریکا ایران تعلقات کی تاریخ پر حکومتی دستاویزات، 136اہم افراد کی تصنیف کردہ کتابوں اور درجنوں مقالوں سے استفادہ کرتے ہوئے کینیتھ ایم پولاک نے ایک کتاب لکھی جو 2004میں شایع ہوئی۔

کینیتھ پولاک نے 1988سے 1995تک امریکی سی آئی اے میں ملازمت کی اور ان کا کام ایران عراق عسکری امور پر تجزیہ نگاری تھا۔سی آئی اے کو ان کی کارکردگی اس درجہ پسند آئی کہ انہیں بسا اوقات توصیفی اسناد سے نوازا گیا۔ 1995 سے وہ امریکی نیشنل سیکورٹی کاؤنسل کے اسٹاف میں شامل رہے۔

 1996 تک وہ نیئر ایسٹ اور ساؤتھ ایشیاء افیئرز کے ڈائریکٹر اور1991سے 2001 تک خلیج فارس امور کے ڈائریکٹر تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ امریکا کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ریسرچ پروفیسر بھی رہے جہاں ان کا بنیادی کام امریکی جوانئٹ چیفس آف اسٹاف کے لئے مشرق وسطیٰ سے متعلق طویل المدت ایشوز اور خاص طور پر فوجی امور کے موضوعات پر تحقیق پیش کرنا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ امریکا کے ایران سے تعلقات کی تاریخ بیان کرتے وقت ان کی کتاب سے استفادہ کرنا ضروری سمجھا۔ کینیتھ پولاک کی اس کتابThe Persian Puzzle: The Conflict Between Iran and America کے 13 ابواب میں پانچواں باب Come the Revolution، چھٹا باب America held Hostage اور ساتواں باب At War with the World ہیں۔

یہ عنوانات ہی یہ سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ جب انقلاب آیا، امریکی یرغمال ہوئے پھر اس کے بعد (ایران کو) دنیا سے جنگ (کا سامنا تھا)۔ آٹھویں باب The Imam's Legacy یعنی ’’ امام (خمینی) کی میراث ‘‘ میں دو جملوں میں امریکی حکومت کی ایران کے بارے میں حتمی رائے بیان کردی:

To American policy makers, Iran appeared to be such a bizarre and troubled country, so intensely anti-American, and so unpredictable that no one in Washington thought anything could be done with them or to them that could possibly benefit the United States in any way. There was a strong sense that Iran was a tar baby, any involvement with it would only bring the country to grief.

یعنی امریکی انقلابی ایران سے مایوس ہوچکے تھے۔ ان کی نظر میں ایران اتنی شدت کے ساتھ امریکا مخالف ہوچکا تھا کہ امریکی پالیسی ساز اس نتیجے پر پہنچے کہ ایران سے امریکا کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا بلکہ اس کے ساتھ کوئی بھی معاملہ کرنا امریکا کو رنج کے سوا کچھ نہیں دے گا۔

امریکا ایران تعلقات کے بارے میں امریکی نکتہ نظر سمجھنے کے لئے ایک اور رائے رابرٹ گیٹس کی بھی ہے اور اس شخصیت کی رائے منتخب کرکے اس مقالے میں شامل کرنے کا سبب بھی ان کی امریکی حکومتوں میں حیثیت اور اہمیت ہے۔

2006 سے 2011 تک وہ امریکا کے وزیر دفاع رہے یعنی بش جونیئر اور اوبامہ کی صدارت کے دور میں۔ ان کی کتاب’’ڈیوٹی، میموری آف اے سیکریٹری ایٹ وار‘‘ اس دور کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔

اس کتاب کے پانچویں باب میں انہوں نے ایران سے متعلق چند اہم نکات بیان کئے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد انہیں بھی ایران امریکا تعلقات کے حوالے سے ذاتی تجربات ہوئے کیونکہ وہ اس وقت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائز ر برزنسکی کے معاون خصوصی تھے۔

1990 کے عشرے کے اوائل میں جارج بش سینیئر کے دور صدارت میں وہ سی آئی اے کے ڈائریکٹرتھے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جمہوری اسلامی ایران نے فروری 1979 میں شاہ ایران کے دھڑن تختے کے بعد سے ہر امریکی صدر کی ایسی کی تیسی کی ہے۔ ایران میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے جمی کارٹر دوسری مرتبہ امریکا کے صدر منتخب نہ ہوسکے یعنی 1980 میں۔ اور 1987 میں قریب قریب صدر رونالڈ ریگن کے مواخذے تک نوبت جاپہنچی تھی اور وجہ صرف ایران سے متعلق معاملات تھے۔

ان کے مطابق ہر امریکی صدر نے انقلابی ایران سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی اور ہر ایک اس کوشش میں ناکام رہا۔ اور تعلقات کی بہتری کی ان کوششوں میں سے پہلی کوشش اکتوبر 1979 میں کی گئی جس میں رابرٹ گیٹس خود شریک تھے۔ یعنی برزنسکی کے معاون خصوصی کی حیثیت سے۔

الجزائر کے انقلاب کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر ایرانی وزیر اعظم، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ بھی وہاں آئے ہوئے تھے اور برزنسکی کے ساتھ رابرٹ گیٹس بھی وہیں تھے اور واشنگٹن کی اجازت سے برزنسکی نے ایرانی وفد سے ہوٹل میں ملاقات کی تو رابرٹ گیٹس نے اس دوران بات چیت کے نوٹس لکھے۔

برزنسکی نے پیشکش کی کہ امریکا انقلابی حکومت کو تسلیم کرلے گا، اانقلابی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گا، حتیٰ کہ اسے وہی اسلحہ فروخت بھی کرے گا جس کا معاہدہ شاہ ایران سے ہوچکا تھا۔

انہوں نے ایرانی وفد کو بتایا کہ ایران کے شمال میں ایران اور امریکا کا مشترکہ دشمن سوویت یونین موجود ہے۔ ایرانی وفد نے ساری باتوں کے جواب میں صرف ایک مطالبہ کیا کہ شاہ ایران کو ایرانی حکومت کے حوالے کیا جائے۔

اس ملاقات کے چند دنوں بعد ہی تہران میں امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا گیا اور امریکیوں کو یرغمال بنالیا گیا جبکہ جن ایرانی حکومتی عہدیداروں نے امریکی حکومتی وفد سے ملاقات کی تھی انہیں بھی عہدوں سے ہٹادیا گیا۔ رابرٹ گیٹس نے دیگر واقعات بھی بیان کئے ہیں۔
لیکن انہوں نے جو اہم نکتہ دانستہ طور پر فراموش کیا وہ امریکی فور اسٹار جنرل رابرٹ ڈچ ہوئیزر یعنی جنرل ہوئیزر (Huyser)کا خفیہ مشن تھا۔ یہ امریکی جنرل 7 جنوری 1979کو تہران پہنچا تھا۔ کینیتھ پولان نے’’پرشین پزل‘‘ یا ’’فارس کا معمہ‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی اپنی کتاب کے چھٹے باب میں جنرل ہوئیزر کے مشن کے بارے میں لکھا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے ان کے مشن کی منظوری 4جنوری کو دی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ امریکا کی نیشنل سیکورٹی کاؤنسل کی رائے اس وقت یہ تھی کہ شاہ ایران کی افواج ایرانی واقعات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ لہٰذا فوجی ٹیک اوور کی راہ ہموار کرنے کے لئے جنرل ہوئیزر کو بھیجا گیا کہ ان کے ایرانی فوجی افسران سے بہت ہی زیادہ گہرے تعلقات تھے۔ کینیتھ نے جنرل ہوئیزر کو نیا ’’کم روزویلٹ‘‘ قرار دیا کرمٹ عرف کم روزویلٹ دوسری جنگ عظیم کے دوران اور بعد میں آفس آف اسٹرٹیجک سروسز کے انٹیلی جنس آفیسر تھے کیونکہ اس وقت تک سی آئی اے قائم نہیں ہوئی تھی اور اسی محکمے کوبعد میں سی آئی اے کی شکل میں تبدیل کیا گیا تھا۔ کم روز ویلٹ نے ایران میں مصدق حکومت کی برطرفی اور رضا شاہ پہلوی کے اقتدار پر قبضے کی راہ ہموار کرنے کے لئے آپریشن اجاکس کیا تھا۔ یعنی امریکا کی ایران میں کھلی مداخلت۔ یہی کام جنرل ہوئیزر کے ذمے تھا جو آخری وقت تک ایران میں شاہ ایران کے وفادار فوجی افسران کے اقتدار پر قبضے کی کوششیں کرتا رہا لیکن قدرت خدا کی کہ ناکام رہا۔

جمی کارٹر ایرانی انقلابیوں کی وجہ سے دوسری مرتبہ صدر نہ بن سکے۔ ایران عراق جنگ میں امریکا نے عراق کی مدد کی کیونکہ امریکا کو خطرہ محسوس ہوا کہ ایران کے انقلابی اردن اور جعلی ریاست اسرائیل اور خلیج فارس میں موجود امریکی اتحادی شیوخ تک پہنچ سکتے ہیں۔ رونالڈ ریگن کی صدارت کے اختتام پر امریکا ایران سے ایک غیر اعلانیہ جنگ میں مصروف تھا۔ بش اول کی صدارت میں بھی پس پردہ ایران کے ساتھ لبنان میں امریکی یرغمالیوں کی رہائی کے سلسلے میں کردار ادا کرنے کے لئے روابط ہوئے لیکن بے نتیجہ۔

بل کلنٹن کے دور میں امریکا کے صہیونی سفارتکار مارٹن انڈائیک نیشنل سیکورٹی کاؤنسل کے نیئر ایسٹ اینڈ ساؤتھ ایشین افیئرز کے سینیئر ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نے امریکا میں صہیونی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی قائم کیا تھا۔ اسی تھنک ٹینک کی ایک تقریب سے18مئی 1993 کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ بل کلنٹن کی صدارت کے دور میں انہوں نے ایران اور عراق کے خلاف دوہری تحدید کی پالیسی اپنائی تھی جوطاقت کے توازن کی پالیسی کے خلاف تھی۔ صہیونی امریکی سفارتکار کے مطابق بیلنس آف پاور کے لئے کسی ایک کو دوسرے کے مقابلے میں ضروری سمجھا جاتا ہے اور امریکا نے اس پالیسی کے برعکس ایران، عراق دونوں ہی کی تحدید پر مبنی پالیسی بنائی۔ صدام سے ایران کے خلاف جنگ کا کام لیا جاچکا تھا اور کویت جنگ کے بعد صدام کو ولن بنادیا گیا تھا ورنہ اس سے قبل یہی صدام امریکا کی آنکھوں کا تارا تھا۔ بل کلنٹن دور کی وزیر خارجہ، میڈیلین البرائٹ نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ماضی کے امریکی کردار پر ایران سے معذرت کا اشارہ کیا تھا۔ کلنٹن کے بعد بش دوم کی صدارت کے آٹھ سال کی روداد اس دور میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اور اس کے بعد وزیر خارجہ رہنے والی کونڈولیزارائس نے اپنی کتاب نو ہائیر آنر میں اور رابرٹ گیٹس نے بیان کی۔ بش جونیئر کی صدارت کے دور میں ایران کے پرامن نیوکلیئرپروگرام کو زبردستی نیوکلیئر اسلحے کا پروگرام بناکر ایران کے خلاف عالمی سطح کے اقدامات کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ بش دوم نے عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ایران کو بریکٹ کرکے اسے بھی axis of evilکا حصہ قرار دیا جسے ایران نے مسترد کردیا۔

پھر صدر اوبامہ کا دور صدارت آیا۔ دو مرتبہ صدارت کی آٹھ سالہ مدت کے دوران بہت سے واقعات کی روداد 2014 میں اوبامہ حکومت کے دو اہم عہدیداروں وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور وزیر دفاع رہنے والے لیون پنیٹا نے بیان کیں۔ ہارڈ چوائسز کے عنوان سے ہیلری کلنٹن نے کتاب لکھی تو اس کا ایک باب ایران کے لئے مخصوص کیا۔ اٹھارہویں باب ایران، سینکشنز اینڈ سیکرٹس میں انہوں نے تفصیلات بیان کیں کہ کس طرح انہوں نے چین کو ایران کے خلاف پابندی کی قرارداد پر ووٹ ڈالنے پر راضی کرلیا تھا۔

یاد رہے کہ امریکا بیک وقت ایرانی حکومت سے خفیہ روابط اور مذاکرات اور پابندیوں پر کام کررہا تھا۔ ایران سے رابطے کے لئے امریکا نے عمان کے سلطان کو استعمال کیا۔ اس کتاب میں اور رابرٹ گیٹس کی کتاب میں یا دیگر امریکی حکومتی عہدیداروں کی کتاب میں یہ نکتہ زور دے کر بیان کیا گیا کہ امریکی صدر اور یہ عہدیدار سبھی اسرائیل کے دوست ہیں۔ ہیلری کلنٹن نے لکھا کہ انہوں نے صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو سے کہا کہ اسرائیل ایران کے خلاف جو کچھ چاہتا ہے، اس پر خاموش رہے، امریکا خود ہی وہ اقدامات کردے گا جو صہیونی حکومت چاہتی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری