جے آئی ٹی رپورٹ کا موقف؛ نواز شریف سوالات کے جوابات نہ دے سکے


جے آئی ٹی رپورٹ کا موقف؛ نواز شریف سوالات کے جوابات نہ دے سکے

شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ الزامات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق وزیراعظم نواز شریف "بیشتر سوالات کے اطمینان بخش جوابات" نہ دے سکے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعظم تحقیقاتی ٹیم کے سامنے "ٹال مٹول اور قیاس سے کام لیتے جبکہ تعاون نہ کرتے دکھائی دیئے۔"

رپورٹ میں کہا گیا کہ دوران انٹرویو وہ زیادہ تر مائل بہ گریز اور خیالات میں محو رہے، ان کے بیان کا زیادہ تر حصہ سنی سنائی بات پر مبنی تھا۔ وزیراعظم نواز شریف غیر واضح جوابات دے کر بیشتر سوالات کو رد کرتے رہے یا حقائق کو چھپانے کے لیے تفصیلات یاد نہ ہونے کا اظہار کیا۔

وزیر اعظم نے بتایا کہ میں 1981 میں وزیر خزانہ بنا، حالانکہ میں کچھ کمپنیوں کا ڈائریکٹر تھا لیکن 1981 کے بعد سے میں کوئی کاروبار نہیں سنبھال رہا، 1998 کے دوران میں نے خود کو کاروبار سے مکمل طور پر علیحدہ کرلیا۔

جے آئی ٹی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات اور نواز شریف کے دیئے گئے جوابات کچھ اس طرح تھے۔

سوال: اپنی تقاریر میں آپ نے کہا تھا کہ عزیزیہ اور گلف اسٹیل کا تمام ریکارڈ موجود ہے مگر بعد ازاں سپریم کورٹ میں آپ کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، کیا آپ اس تضاد کی وضاحت کرسکتے ہیں؟

جواب: مجھے یقین نہیں، شاید میں نے اسپیکر کو ریکارڈ فراہم کیا ہو، لیکن میں اس حوالے سے یقین سے نہیں کہہ سکتا۔

سوال: آپ نے کہا تھا کہ فریقین 6، 7 اور 8 نے دوران کارروائی گلف اسٹیل اور عزیزیہ کے حوالے سے جو کچھ سپریم کورٹ میں جمع کرایا ہے آپ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ کیا آپ نے ذاتی طور پر یہ دیکھا کہ ان فریقین نے سپریم کورٹ میں کیا جمع کرایا ہے یا آپ کی معلومات اہل خانہ کے درمیان ہونے والی بات چیت پر مبنی ہے؟

جواب: میں نے ان کی جمع کرائی چیزیں نہیں دیکھیں، میری معلومات اہل خانہ کے درمیان ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر قائم ہے لیکن انہوں نے جو کچھ جمع کرایا ہے میں اس کی توثیق کرتا ہوں۔

سوال: کیا آپ کے پاس ایسی کوئی دستاویزات موجود ہیں جو آپ آج لائی گئی دستاویزات کے علاوہ پیش کرنا چاہیں؟

جواب: مزید کوئی دستایزات پیش کرنے کے لیے موجود نہیں، ہم پہلے ہی اپنے پاس موجود تمام دستاویزات پیش کرچکے ہیں۔

سوال: 1999 میں کوئینز بینچ ڈویژن نے ایون فیلڈ جائیدادوں پر انتباہ جاری کیا تھا جسے تصفیے کی بنیاد پر ہٹادیا گیا، اس تصفیے کی شرائط سے متعلق آپ کیا جانتے ہیں؟

جواب: میں نے اس بارے میں سنا ہے لیکن مجھے تصفیے کی شرائط کا علم نہیں۔

سوال: آپ نے 2005 میں خاندانی اثاثوں کے تصفیے کا بھی حوالہ دیا تھا۔ کیا گلف اسٹیل سے حاصل آمدن کی سرمایہ کاری کا معاملہ ایون فیلڈ جائیدادوں کے حوالے سے دیکھا گیا تھا؟

جواب: ہاں، شاید اس حوالے سے بات چیت ہوئی تھی اور چونکہ یہ فلیٹس حسن اور حسین کی ملکیت میں رہے، میرے خیال سے ان کا مالک حسن ہے، لیکن میں پورے یقین سے ایسا نہیں کہہ سکتا۔

سوال: حسین کا دعویٰ ہے کہ اپارٹمنٹس ان کے ہیں مگر عملی طور پر ان میں سے ایک اپارٹمنٹ میں کئی دہائیوں سے حسن رہائش پذیر ہیں، کیا آپ کو یہ کچھ عجیب نہیں لگتا؟

جواب: بھائیوں کے درمیان ایسا ہونا غیرمعمولی نہیں ہے۔

سوال: کیا آپ حسین نواز کی کمپنیوں کے حوالے سے ان کے اور مریم نواز کے درمیان دستخط کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں جانتے ہیں؟

جواب: مجھے مریم (نواز) صفدر کی جانب سے حسین نواز کی دستخط کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ کی کوئی معلومات نہیں۔

سوال: کیا آپ نیشنل بینک آپ پاکستان کے سعید احمد کو جانتے ہیں اور کیا آپ کا ان کے ساتھ کوئی کاروبار تھا؟

جواب: میں سعید احمد کو طویل عرصے سے جانتا ہوں لیکن میرا ان کے ساتھ کوئی کاروباری تعلق نہیں۔

سوال: کیا آپ قاضی فیملی کو جانتے ہیں؟

جواب: میں انہیں نہیں جانتا، میں کافی لوگوں سے ملتا ہوں اور مجھے سب یاد نہیں رہتے۔

سوال: کیا آپ شیخ سعید کو جانتے ہیں؟

جواب: ہاں میں انہیں طویل عرصے سے جانتا ہوں، لیکن میرا ان سے کوئی کاروباری تعلق نہیں۔

سوال: حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں آپ کی جانب سے 2002-2001 میں نیب کے ساتھ ایک تصفیہ کیا گیا جبکہ چوہدری اور رمضان ملز سے لیے گئے قرضوں کے ذریعے ادائیگی کی گئی، مہربانی کرکے ہمیں اس تصفیے کی تفصیلات سے آگاہ کریں؟

جواب: مجھے اس بات کا نہیں معلوم کہ قرضہ لیا گیا تھا، مجھے اس معاملے کے بارے میں کچھ نہیں پتہ۔

سوال: کیا آپ نے اپنے اہل خانہ کو بیرون ملک رقوم بھجوائیں؟

جواب: نہیں، میں نے نہیں بھجوائیں۔

سوال: ہل میٹلز سے ملنے والی رقم کا کچھ حصہ سیاسی فنڈنگ کے لیے استعمال کیا گیا؟

جواب: نہیں، لیکن اگر میں نے ایسا کیا تو یہ جرم ہے۔

سوال: کیا یہ غیرملکی فنڈنگ میں شمار نہیں ہوگا؟

کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری