تاریخ کی عدالت میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت


تاریخ کی عدالت میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت

روزِ عاشور گزر چکا۔ شہدا اپنی باتیں کہہ چکے۔۔۔ اور ہم ان کے مخاطب ہیں۔۔۔ آج شہدا نے اپنا پیغام اپنے خون سے لکھ کر چھوڑ دیا اور ہمارے مقابل روئے زمین پر بیٹھ گئے تاکہ تاریخِ بشریت میں بیٹھ رہنے والوں کو کھڑے ہونے یعنی قیام و انقلاب کی دعوت دیں۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: ہماری تہذیب میں، ہمارے مذھب میں، ہماری تاریخ میں، بشریت نے جو بہترین اور عزیز ترین موتی پیدا کئے ان میں تشیع سب سے زیادہ حیات بخش عنصر ہے جو تاریخ کو زندگی، تڑپ، حرارت اور حرکت بخشتا ہے۔۔۔۔۔ اور اس میں بھی سب سے زیادہ حیات بخش اور حرارت آور عنصر ’’کربلا ‘‘  ہے۔ مگر یہ کیا ہم نے اس عظیم حیات آور عنصر کو مسکن اور خواب آور بنا دیا۔

ابھی ابھی شہیدوں نے اپنے فرائض ادا ہی کئے ہیں کہ ہم  نے شبِ شام غریباں منا کر ان کے عظیم کارناموں کے خاتمے کا اعلان کردیا۔

ابھی تو شہیدوں نے اپنا کام ختم کیا ہے، خاموش ہوئے ہیں، ان میں سے ہر ایک نے اپنا رول پورے طور پر ادا کیا ہے۔۔۔ معلم، موذن، بوڑھا، جوان، چھوٹا، بڑا، بچہ، عورت، ان میں کا ہر ایک نمائندہ اور نمونے کے عنوان و حیثیت سے سبھی بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور بڑوں اور چھوٹوں کو درس دے رہا تھا۔ اس خوبصورتی اور پورے اہتمام کے ساتھ موت کو گلے لگا کر زندگی کا انتخاب کر رہا ہے۔۔۔

 ان شہیدوں نے دو عظیم کارنامے انجام دیے، حسین علیہ السلام کے ننھے مجاہد سے لے کر ان کے بھائی تک۔۔ خود ان کی ذات سے لیکر ان کے غلام تک۔۔۔ سبھی اتحاد و یگانگت کے ساتھ شہادت کیلئے کھڑے ہوگئے۔۔۔ تاکہ تمام مردوں، عورتوں، بچوں اور سبھی بوڑھوں اور جوانوں کو تاریخ میں ہمیشہ یہ درس دیتے رہیں کہ زندگی کس طرح گزارنی چاہئے۔۔

ان شہیدوں نے ایک دوسرا کارنامہ بھی انجام دیا۔۔ اپنے خون سے شہادت (گواہی) دی۔۔ نہ کہ زبانی طور پر۔۔۔ انسانی تاریخ کی عدالت میں شہادت دی۔۔ ہر ایک نے اپنے صنف کی نمائندگی کرتے ہوئے شہادت دی کہ انسانی تاریخ پر ایک حاکم نظام میں۔۔۔۔۔۔ ایسا نظام جس نے سیاست کو، اقتصاد کو۔۔۔ مذھب کو، خیالات و نظریات کو، احساس کو، جذبات کو، اخلاقیات کو، انسانیت کو، سبھی کو اپنا دست نگر اور غلام بنا لیا ہو۔۔۔ تاکہ انسان کو اپنی قربان گاہِ حرص و ہوس پر بھینٹ چڑھا دے اور ہر طریقے سے ظلم و جور اور جرائم پیشہ حکومت کی بنیاد استوار کرے۔۔۔ اور عوام کی تمام جماعتیں اور جملہ اقدار انسانی محکوم ہوجائیں۔۔ حسین علیہ السلام اپنے پورے وجود کے ساتھ کربلا آئے تاکہ تاریخ کی عدالت میں، فرات کے کنارے، شہادت دیں۔۔۔  شہادت دیں تاریخِ بشریت کے سارے مظلوموں کے مفاد اور حق میں۔۔۔

 حسین علیہ السلام آئے کہ علی اکبر علیہ السلام کے ساتھ شہادت دیں۔۔۔ تاریخ پر حکومت کرنے والے ان جلاد کے محکوموں کے مفاد میں۔۔۔ شہادت دیں کہ تاریخ کے ضحاک صفت جلادوں نے پوری تاریخِ بشریت میں جوانوں کے ذہنوں اور دماغوں کو کھایا ہے۔۔۔۔۔۔ اور شہادت دیں کہ نظامِ جرم جنایت میں کس طرح عالی حوصلہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

حسینؑ آئے کہ اپنے خون سے شہادت دیں۔۔۔ اپنی بہن زینب علیہا السلام کے ساتھ۔۔۔

اور شہادت دیں کہ تاریخ پر حکومت کرنے والے طاغوتی نظام میں کس طرح عورتیں یا تو ذھنی و فکری قید و بند کی زندگی کو منتخب کر کے خود کو طاغوت کے فکری قید خانہ میں پابند سلاسل کر لیتی ہیں یا  اور اگر کسی نے آزاد رہنا چاہا تو اسے اسیروں کی قافلہ سالار بننا پڑا اور شہیدوں کے باقی ماندہ افراد میں شمار ہونا پڑا۔۔۔

حسین علیہ السلام آئے۔۔ اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ۔۔۔ تاکہ شہادت دیں کہ ظلم و جور اور جرم و جنایت کے نظام میں جابر جلادوں نے تاریخ کے شیر خوار بچوں پر بھی رحم نہیں کیا ہے۔۔۔

اب تاریخ کی عدالت برخواست ہورہی ہے۔۔۔ اور حسین علیہ السلام کی شہادت اور ان کے تمام عزیزوں، ان کا پورا وجود۔ خدا کے علاوہ جو کچھ بہترین امکانات ان کے اختیار میں ہیں،  ان کے ساتھ اپنے خدا کی عظیم رسالت و مسئولیت کو انجام دے دیا ہے۔۔

دوستو۔۔اس تشیع اور شیعیت میں جسے آج پاکستان میں اس شکل میں جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ، متعدد باہر کی چیزیں بھر دی گئی ہیں۔۔۔ جو شخص سچے، پر جوش اور بیدار کنندہ تشیع کو اس سے جدا کرنے کی کوشش کرنا چاہے ، اسے دشمن سے زیادہ دوستوں کے ہاتھوں اپنی قربانی دینی ہوگی۔۔۔۔اصل تشیع کے عظیم اسباق و پیغامات، عطیات الہیٰ، عظیم قدریں، عزیز ترین سرمایہ ہائے تہذیب و تمدن، معاشرہ کیلئے حیات بخش روحیں، قوم اور تاریخ اوجھل ہے۔۔  

نام نہاد ذاکروں اور خطیبوں نے جو تشیع بتائی وہ مسکن اور نیند آور تشیع ہے۔۔ اور افسوس کے اگر ان نام نہاد اور تشیع کو نقصان پہنچانے والے ذاکروں کے خلاف کوئی کاروائی ہو بھی جائے تو ان کو بچانے کیلئے متعدد شخصیات میدان میں اتر آتی ہیں۔ (اشارہ حال ہی میں عراق میں ایک پاکستانی ذاکر کے حوالے سے پیش آنے والے   واقعے کی جانب ہے)   

 کس قدر ہوشیاری کے ساتھ بدل دیا گیا حسین علیہ السلام کے پیغام کو۔۔۔ عظیم لوگوں اوران کے جاوید ہونے کو،،، ایسا پیغام جس میں پوری انسانیت کو مخاطب کیا گیا ہے۔۔

یہی امام حسین علیہ السلام بہ آواز بلند کہہ رہے ہیں۔۔ اس عالم میں کہ اپنے تمام عزیزوں کو خون میں ڈوبا دیکھتے ہیں۔۔اور اپنی نگاہوں کے سامنے کینہ توز، غارت گر دشمنوں کے سوا کسی کو نہیں پاتے، فریاد کر رہے ہیں کہ کیا کوئی ہے جو میری مدد کرے اور انتقام لے؟؟

کیا وہ نہیں جانتے کہ اس وقت کوئی بھی نہیں ہے جو ان کی مدد کرے، ان کا انتقام لے؟؟ مگر یہ سوال انسانیت کی مستقبل کی تاریخ سے ہے۔۔ یہ مطالبہ آنے والے دور سے ہے۔۔ ہم سبھی سے ہے۔۔

یہ سوال حسین علیہ السلام کے انتظار کو ان کے چاہنے والوں سے بیان کرتا ہے اور ان کی دعوت شہادت کے ان تمام افراد کو جو شہیدوں کی حرمت و عظمت کے قائل ہیں، با خبر اور آگاہ کرتا ہے۔۔۔

لیکن اس دعوت کو، ان کی مدد کے اس انتظار کو، حسین علیہ السلام کے اس پیغام کو،  کہ ’’وہ شیعہ چاہتے ہیں‘‘ ہر زمانے میں، ہر نسل میں، ’’ شیعہ‘‘ طلب کرتے ہیں ہم نے خاموش کردیا۔ اس عنوان کے ساتھ کہ ہم نے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ حسینؑ ’’ آنسو کے طلب گار ہیں‘‘ ’’گریہ و زاری کے خواہاں ہیں‘‘ دوسرا کچھ بھی نہیں،،، کوئی دوسرا پیغام نہیں رکھتے۔۔۔

نہیں، وہ شاہد ہیں، شہید ہیں، ہر جگہ حاضر ہیں۔۔۔ ہر وقت حاضر ہیں۔۔۔ اس لئے ’’پیرو‘‘ کے طالب ہیں۔۔۔

شہید یعنی حاضر۔۔۔ جو لوگ تنہا رہ کر بھی مسخ ہوتی ہوئی عظیم قدروں کی راہ میں جدوجہد کا انتخاب کرتے اور اس راہ میں اپنی جان دیتے ہیں، وہی شہید ہیں، زندہ ہیں، حاضر ہیں، شاہد و گواہ ہیں اور ناظر ہیں۔۔۔ نہ صرف خدا ہی کی بارگاہ میں بلکہ عوام کی بارگاہ میں بھی۔۔۔ ہر عہد میں، ہر صدی میں ، ہر زمانے اور ہر زمین میں۔۔

اور جو لوگ ہر قسم کی ذلت گوارہ کرتے ہیں تاکہ زندہ رہیں، ایسے لوگ تاریخ کے خاموش مردے ہیں۔۔

ذرا غور سے دیکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسے کیسے لوگ حسین علیہ السلام کے ساتھ قتل گاہ کی جانب آئے ہیں اور اپنی موت کو منتخب کیا ہے حالانکہ ان کے زندہ رہنے کیلئے سینکڑوں آبرومندانہ گریز گاہیں موجود تھیں۔۔۔ ویسی ہی گریز گاہیں جن سے ہم میں کی اکثریت گزر کر اس آبرومندانہ راستے سے گریز کرتی ہے۔۔۔

ان کیلئے بھی سینکڑوں دینی اور شرعی عذر زندہ رہنے کیلئے ممکن تھے مگر انہوں نے کسی قسم کی تاویل و توجیہہ نہیں کی اور جان دیدی۔ اور آج یہ سب زندہ ہیں۔۔۔  اور جنہوں نے زندہ رہنے کیلئے ہر قسم کی ذلت اور ہر طرح کی پستی حسینؑ کا ساتھ چھوڑنے اور یزید کو اپنے اوپر لادنے کیلئے برداشت کی اب ان میں سے کون زندہ ہے؟؟؟

جو شخص زندہ رہنے کو صرف جسم کی حرکت میں نہیں دیکھتا، حسین علیہ السلام کو اپنے پورے وجود کے ساتھ زندہ اور شاہد دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔۔

شہید تاریخ کا دل ہوتا ہے۔۔ جیسے دل جسم کی سوکھی رگوں میں زندگی کا خون دیتا ہے، معاشرہ جو موت کی طرف رخ کئے قریبِ مرگ ہوتا ہے، وہ سماج جس کے فرزند اپنے ایمان کو اپنے ہی ہاتھوں سے گنوا دیتے ہیں، وہ معاشرہ جو تدریجی موت میں گرفتار سسک سسک کر دم توڑتا رہا ہے، وہ معاشرہ جو اپنی خود سپردگی کو عظمت قرار دینے لگتا ہے، وہ معاشرہ جو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ختم کردیتا ہے، وہ معاشرہ جو انسان کے یقین و اعتقاد کو گم کردیتا ہے اور وہ تاریخ جو زندگی سے، حرکت سے، جنبش سے محروم ہوجاتی ہے، شہید دل می مانند دم توڑتے ہوئے، بے جان معاشرے کے خشک جسم میں اپنا خون پہنچاتا ہے۔۔۔ اور اس کی شہادت کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نسل اپنے ایمان کی تجدید نو کرتی ہے۔۔۔

 حسین علیہ السلام نے اپنی شہادت سے ہمیں ایک عظیم درس دیا ہے۔

آپ علیہ السلام حج کو چھوڑ کر منزل شہادت کی طرف چلے گئے ۔ حج کو ادھورا چھوڑ دیا اور شہادت کو منتخب کرلیا۔۔ حج کے مراسم کو منزل اتمام تک نہیں پہنچاتے تاکہ تاریخ کے تمام حاجیوں کو، تاریخ کے تمام نماز گذاروں کو، سنتِ ابراہیم علیہ السلام پر ایمان رکھنے والوں کو یہ درس دیں کہ اگر امامت نہ ہوتی، رہبری نہ ہوتی، اگر مقصد نہ ہوتا، اگر حسین علیہ السلام نہ ہوتے، اگر یزید ہوتا تو خدا کے گھر کے گرد طواف کرنا اور بت خانے کے چاروں طرف چکر لگانا مساوی ہوجاتا۔۔

شہید جو حاضر ہوتا ہے حق و باطل کے تمام میدانوں میں، ظلم و انصاف کے مابین سارے جہادوں میں، موجود رہتا ہے، چاہتا ہے کہ اپنی موجودگی سے اس پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچا دے کہ جب میدان میں نہ رہے جب اپنے زمانے کے میدانِ حق و باطل سے غائب ہو تو جہاں بھی جی چاہے موجود رہے فرق نہیں پڑتا۔۔

شہادت یعنی حق و باطل کی تاریخ کے میدان میں ہمیشہ موجود رہنا ہے۔

وہ لوگ جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیا تھا تاکہ یزید (لعین) کے آلہ کار بن جائیں، یا وہ لوگ جو جنت کی ہوس میں گوشہِ عبادت میں جا بیٹھے تھے اور بڑے ہی سکون و اطمینان و سلامتی کے ساتھ حسین علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیا تھا اور حق و باطل کے دردِ سر سے کنارہ کش ہوکر گھر کے کونے میں عبادتِ خدا میں مصروف ہوگئے تھے یا چاہے وہ لوگ جنہوں نے طاقت سے مرعوب ہوکر خاموشی اختیار کرلی تھی۔۔۔ یہ سب برابر ہیں۔۔ یہ تینوں طبقات ایک ہی ہیں۔۔۔

ہر صدی اور ہر عہد میں معرکہ حق و باطل ہے۔۔ اور حسین علیہ السلام کی صدائے استغاثہ ہے۔ جو شخص اس کے میدان میں موجود نہیں، وہ جہاں بھی رہے ایک ہی بات ہے۔۔ تشیع کی روح کے معنی یہ ہیں کہ ہر عمل قبول ہوجائے، یعنی ہر عمل کی قدروقیمت امامت سے، رہبری سے اور ولایت سے متعلق ہے، اگر وہ نہیں تو ساری چیزیں بے معنی ہیں۔۔  حسین علیہ السلام نے اپنے وجود سے، تمام زمانوں میں، تمام نسلوں کے سامنے، سارے جہادوں میں، زمین و زمان کے سارے میدانوں کو باخبر کردیا۔۔۔ کربلا میں جان دیدی تاکہ تمام نسلوں اور زمانوں میں پیغام پہنچ جائے۔۔۔ ۔۔۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری