شام میں ایرانی گاڑیوں کی صنعت + ویڈیو


شام میں ایرانی گاڑیوں کی صنعت + ویڈیو

وہ جنگ جس کی آگ گذشتہ سات برسوں سے شام کے مختلف نکات میں بھڑکی ہوئی ہے، اس ملک میں گاڑی تیار کرنے کی صنعت کو پھلنے پھولنے سے نہیں روک سکی حالانکہ اقتصادی ناکہ بندی کے سبب اس صنعت کو نقصان کا سامنا ضرور کرنا پڑا ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: مشرق وسطیٰ میں ایرن اور ایران سایپا جیسی کمپنیوں نے بحسن و خوبی اس صنعت کو سنبھال لیا ہے۔

2007 میں شام میں سیانکو اور سابا نامی دو کمپنیوں کی داغ بیل ڈالی گئی جنہوں نے شام میں بنائی گئی پہلی کار کو مارکیٹ میں پیش کیا۔

شام کے عدرا اور حسیا نامی صنعتی شہروں میں ان کمپنیوں کا قیام بہت امید افزا اور حوصلہ بخش رہا اور ان کمپنیوں نے 30 ہزار گاڑیاں بناکر شام کی مارکیٹ میں اپنا سکہ جما لیا ہے جس کا شامی حلقوں میں تعریف و تمجید کے ساتھ خیر مقدم بھی ہوا ہے۔

اردو سب ٹائٹل کیساتھ دی گئی ویڈیو کا متن؛

یہ گاڑی ایرانی کمپنی کی مشارکت سے اندرون ملک بنائی گئی ہے جو ملکی اقتصاد کے لئے بہت کارآمد ہے۔ ان گاڑیوں کی فروخت بھی بہت عمدہ رہی، ایران شامی حکومت کا دوست ملک ہے اور شامی عوام کا حد درجہ مددگار، ایران نے صرف اس صنعت میں ہی نہیں بلکہ  ہر میدان میں شام کی حمایت کی ہے،  اس گاڑی کو مارکیٹ میں دل سے قبول کیا گیا ہے۔

2011 میں شام میں جنگ کی آگ بھڑکنے کے سبب سیکورٹی حوالے سے ان کمپنیوں کی فعالیت پر کافی اثر پڑا، خام مال کی کمی، فیکٹری میں لوگوں کی کمی کے سبب بھی ان کمپنیوں کا کام متاثر ہوا، لیکن دہشت گردی کو نابود کرنے کے شام اور ایران حکومت کے مصمم ارادہ، مستحکم عزم و حوصلہ اور خطہ میں ان کی حکمت عملی کے سبب ان کمپنیوں نے 2015 میں اپنی فعالیت پھر شروع کر دی اور نئے ماڈل بازار میں پیش کئے، دھیرے دھیرے ان کمپنیوں نے ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے بہترین کاریں اور خصوصا حالیہ دنوں میں دمشق میں منعقد عالمی نمائش میں سیانکو نے الشھباء نام سے ملکی اقتصاد کا سب سے بہترین شاہکار پیش کیا۔

خدا کا شکر یہ دونوں گاڑیاں، سایپا اور تیبا بہت آرام دہ ہیں، خصوصا اس لئے بھی کہ یہ ایران کی مدد سے بنائی گئی ہیں، ان کی گاڑیاں بھی بہت عمدہ ہیں۔

میں اس ایرانی گاڑی، سایپا کو دیگر سب کاروں پر ترجیح دیتا ہوں کیوں کہ اس کی قیمت بھی کم ہے، اگر اس میں کوئی تکنیکی کمی آ بھی جائے تو بہت معمولی قیمتوں میں مرمت کرائی جا سکتی ہے۔

مغرب کی جانب سے اقتصادی محاصرے کا شکار شامی معاشرہ، ایران اور شامی کمپنیوں کی جدوجہد سے امیدوں اور حوصلوں سے بھر گیا ہے اور ان گاڑیوں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان کی قیمت شامی عوام کے روزگار اور ان کی درآمد کے حساب سے بہت مناسب ہے۔

عالمی کمپنیوں نے شام بحران شروع ہوتے ہی اس ملک سے اپنا سرمایہ اور کاروبار سمیٹنے کی حد درجہ کوشش کی، جس کے سبب یہ ملک اقتصادی بحران کے دہانے پر پہنچ گیا۔ ان سب کے برخلاف ایرانی کمپنیوں نے باوجود اس کے کہ وہ مشرق وسطیٰ کی اہم اور بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہیں، شام کے ساتھ ثابت قدم رہنے اور دہشت گردی کا سامنا کرنے کو ترجیح دی اور آج دہشت گردی کیخلاف کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کمپنیاں بھی جیت کا احساس کر رہی ہیں۔

اہم ترین ایران خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری