موجودہ سیاسی صورتحال اور پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں


موجودہ سیاسی صورتحال اور پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں

پاکستان میں سینٹ الیکشن کی بحث پورے آب و تاب سے جاری ہے اور جوڑ توڑ کا ایک طوفان ہے جو کہ کہیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہالیکن یہاں میں پاکستان کے چھیانوے فیصد کے نماءندہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی بے بسی و بے حسی کا نوحہ تحریر کرنے جا رہا ہوں۔

خبررساں ادارہ تسنیم: میں بخوبی جانتا ہوں کہ مذہبی جماعتوں کو آئینہ دکھانا انتہائی مشکل اقدام ہے لیکن یہ وہ آگ ہے جس کو کسی نہ کسی کو کبھی نہ کبھی تو چھونا ہی ہے لہذا میں اس امید پر ابتداء کر رہا ہوں کہ شاید میرے الفاظ درست انداز میں رہنمائی کا فرض ادا کر جائیں۔ 

پاکستان کی تمام مذہبی سیاسی جماعتیں خواہ وہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہوں اپنے منشور میں دو باتوں کا اہتمام ضرور کرتی ہیں۔ اول تو یہ کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ اور دوسرا پر امن سیاست! لیکن اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے مطلوبہ لوازمات کو پورا کرنے کی جانب کبھی بھی عمل پیہم دکھائی نہیں دیا۔ 

المیہ یہ ہے کہ ایک سو چار کے ایوان بالا میں جمیعت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کے پانچ، جماعت اسلامی کے ایک ممبر اور پاکستان مسلم لیگ فنگشنل کے ایک ممبرموجود ہو پائے ہیں۔ گو کہ فنگشنل لیگ ایک باقاعدہ مذہبی سیاسی جماعت کی بجائے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت گردانی جاتی ہے لیکن میں پیر صاحب پگاڑا کی نسبت سے اسے بھی ایک مذہبی سیاسی جماعت کے طور پر فرض کر لیتا ہوں۔ ان تین جماعتوں کے علاوہ کوئی بھی مذہبی سیاسی جماعت سینٹ یعنی ایوان بالا میں اپنی نمائندگی نہیں رکھتی۔ چلیں جناب مان لیتے ہیں کہ یہ سات ارکان مختلف جماعتوں کے ساتھ الحاق میں ہیں اور براہ راست نہ سہی الحاق کی سیڑھی کے ساتھ اپنی آواز کو ایوان تک پہنچانے کا ذریعہ رکھتے ہیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہے ایک اسلامی فلاحی ریاست میں اسلامی نظام کے نفاذ و بقاء کےلیے؟ جواب میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں، لیکن پھر بھی کہے دیتا ہوں کہ یہ بالکل بھی کافی نہیں ہے! بلکہ خاکم بدہن، اگر کوئی غیر اسلامی قانون ایوان میں آجاتا ہے تو یہ تعداد اس کے خلاف آواز تو اٹھا سکتی ہے لیکن اسے روکنے کی بالکل بھی پوزیشن میں نہیں ہے۔ 

چلیں یہ تو ایوان بالا کی بات تھی، کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی قانون کو ایوان بالا تک پہنچنے کے لیے بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور ایک غیر اسلامی قانون کو اس سے پہلے ہی روک لیا جائے گا۔ چلیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی صورتحال بھی بیان کئے دیتے ہیں۔ 

قومی اسمبلی کے تین سو بارہ ممبران کے ایوان میں مجموعی طور پر صرف بائیس ممبران مذہبی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جمیعت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کے تیرہ، پاکستان مسلم لیگ فنگشنل کے پانچ، اور جماعت اسلامی کے چار ارکان موجود ہیں جبکہ باقی کوئی بھی مذہبی سیاسی جماعت اپنی باقاعدہ نمائندگی نہیں رکھتی۔  

صوبائی اسمبلی سندھ کے ایک سو اڑسٹھ کے ایوان میں فنکشنل لیگ کے  نو ارکان موجود ہیں اور دیگر کوئی سیاسی مذہبی جماعت موجود نہیں۔ صوبائی اسمبلی بلوچستان کے پینسٹھ ارکان میں سے جمیعت علماء اسلام فضل الرحمن کے آٹھ اور مجلس وحدت المسلمین کے ایک رکن موجود ہیں اور ان کے علاوہ کوئی مذہبی سیاسی جماعت موجود نہیں۔ صوبائی اسمبلی خیبر پختونخواہ کے ایک سو چوبیس کے ایوان میں جمیعت علماء اسلام فضل الرحمن کے سولہ اور جماعت اسلامی کے سات ارکان موجود ہیں۔ صوبائی اسمبلی پنجاب کے تین سو اکہتر ارکان کے ایوان میں جمیعت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ اور جماعت اسلامی کا ایک ایک ممبر موجود ہے جبکہ صوبائی اسمبلی گلگت بلتستان کے تیتیس ارکان کے ایوان میں مجلس وحدت المسلمین کے دو، تحریک جعفریہ پاکستان کے تین، جمیعت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کا ایک ممبر موجود ہے۔ ان تمام کے علاوہ کوئی بھی جماعت اپنی نمائندگی نہیں رکھتی۔ بیان کردہ اعداد و شمار آپ کو یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ مستقبل قریب میں اگر کوئی بین الاقوامی لابی پاکستان میں اپنی مرضی کا قانون نافذ کرنے کا ارداہ کر لیتی ہے تو چند ارب کے اخراجات میں وہ ایسا ممکن بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہم نے ختم نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قوانین میں ترمیم ہوتی دیکھی۔

حقیقی صورتحال یہ ہی ہے کہ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا پرسان حال کچھ نہیں ہے اور انتہائی افسوس اس بات کا ہے کہ ان حالات کو بہتر بنانے کے لیے کوئی کاوش بھی نہیں کی جا رہی ہے۔ دھرنا دے کر مطالبات منوا لینا اور پورے ملک کا پہیہ جام کر کے کسی قانون کو رکوا لینا میرے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں۔ اصل بات ہے عوام کے اعتماد کو ووٹ کی صورت میں اپنے حق میں کاسٹ کروانا۔ معاف کیجیے گا لیکن یہ اعتماد وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوا ہے اور مزید کم ہو رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نہ تو علماء کو فکر ہے اور نہ ہی ووٹرز کو۔ ووٹرز کو لگتا ہے کہ عالم صاحب اس کے لیے تھانہ، کچہری، ہسپتال، اور دیگر مسائل حل نہیں کروا سکتے کیونکہ وہ مذہبی شخصیت ہیں۔ دوسری جانب عوام کی ان تک رسائی انتہائی مشکل ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بے انتہاء پیسہ الیکشن اخراجات کی مد میں خرچنے کے باوجود بھی علماء الیکشن ہار جاتے ہیں۔ بہت سے مذہبی سیاسی جماعتوں سے وابسطہ امیدواران نجی محفلوں میں یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ "لوگ عزت بہت کرتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دیتے۔" 

آپ کی مذہبی وابستگی کچھ بھی ہو، آپ کسی بھی مکتب فکر کے پیروکار ہوں، لیکن جناب والا اس تمام صورتحال میں آخر کار ہماری اسلامی پہچان و اقدار خطرے میں ہیں۔ اگر آپ نتائج نہیں دے سکتے تو صرف سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اپنی پہچان بنانے کا آپ کو بھی نقصان ہے اور امت کو بھی۔ جناب والا نتائج کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ مٹی کے ساتھ مٹی ہونا پڑتا ہے۔ عام آدمی آپ پر یقین کرنا چاہتا ہے لیکن آپ اسے یقین دلائیں کہ آپ اس کے مسائل کا حل لے کر آئے ہیں اور اسمبلیوں میں اس کے حقوق کے لیے شمشیر برہنہ ہوں گے۔ 

آپ کے پاس اس طرز انتخاب کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ کوئی بھی اتحاد خواہ اس میں کتنے ہی بڑے اور معتبر نام ہوں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اسے عام آدمی کی حمایت حاصل نہیں ہو جاتی۔ عام آدمی کے مسائل کو سمجھنے کے لیے آپ کو اس تک پہنچنا ہو گا۔ معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے مشائخ عزام کا عوام کے ساتھ اس نوعیت کا رابطہ بالکل بھی نہیں ہے جس نوعیت کا ایک سیاستدان رکھتا ہے۔ آپ کے بڑے جلسوں اور دھرنوں سے عام آدمی کو کوئی سروکار نہیں۔ آپ کو عددی برتری درکار ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی مملکت بن کر دنیا کے نقشہ پر دکھائی دے۔ لیکن اگر آپ ایسا کرنے سے قاصر ہیں اور آپ کی سعی کے مقاصد اس کے علاوہ کچھ اور ہیں تو معاف کیجیے گا لیکن میں کہہ رہا ہوں کہ آپ بھی ایک دکاندار ہی ہیں جس طرح آج سینٹ میں دکان لگی ہوئی ہے کسی روز آپ کے مال کی بھی اچھی قیمت لگ ہی جائے گی۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری