پاکستان کے پرانے دشمنوں کی نئی چالیں


پاکستان کے پرانے دشمنوں کی نئی چالیں

جنگیں عام طور پر مال و اقتدار کے لئے لڑی جاتی ہیں، جسے عموما ڈپلومیسی اور میڈیا کی زبان میں لفظ مفادات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: انٹرنیشنل ریلیشنز میں انہیں مفادات ( مال واقتدار )کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ انہیں کی حفاظت کی خاطر قربتیں اور دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ آج انہیں کے تحفظ کی خاطر مختلف حیلے بہانے، نرمیاں سختیاں، جان ومال اور آبرو سب کچھ داو پر لگائی جاتی ہے۔ اسی ہدف کے حصول کے لئے دین ومذہب، قوم وقبیلہ ہر چیز کو استعمال کیا جاتا ہے. مال واقتدار کے سوداگر دنیا کے سامنے ہمیشہ اپنی سیاہ کاریوں کو خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنا کر پیش کرتے ہیں. اور ادب ولغت وصحافت کے میدان کے کھلاڑی پرکشش اصطلاحوں اور تعبیرات وتفسیرات کے دامن میں بھیانک نتائج کی عفونت وبدبو کو چھپاتے ہیں۔ اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ وہ عرف عام میں سچ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اگر زمانے کی روش کے بالعکس اگر کوئی سچ بولنے کی جرات کرے تو سب اسے جھوٹا اور انتہا پسند یا فتنہ پرداز جیسے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔

جب امریکا نے 70 کی دھائی میں کیمونسٹ پیش رفت کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے اخوان المسلمین سے تعاون مانگا چنانچہ اسامہ بن لادن کو میدان میں اتارا گیا. دوسری طرف پاکستانی اخوان المسلمین یعنی جماعت اسلامی اور انکی ہم فکر دینی وقومی جماعتوں کے تعاون سے جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا اور اخوانی فکر کا حامی فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آیا. اوریوں ایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر بے دین اور کیمونسٹ ہونے کا الزام لگا اور اسے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا.اس طرح کیمونزم کا مقابلہ کرنے کے بہانے سلفی ووھابی نرسریاں اگانے کے لئے پورا ملک سعودی عرب کو ٹھیکے پر دے دیا گیا۔

ہم نے پاکستان تو سعودی عرب کو جہادی ٹھیکے پر دے دیا لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے آنکھیں بند کئے رہے کہ افغانستان کی آبادی تین بڑی قومیتوں پر مشتمل ہے. 1- ازبک ، 2- ہزارہ اور 3- پختون . افغان پالیسی مرتب کرتے وقت پاکستان کے قومی مفاد کو نظر انداز کیا گیا اور متوازن پالیسی نہیں بنی بلکہ سعودی و امریکی تعصب کی بنا پر پالیسی بنائی گئی۔

جب پاکستان نے سعودی و امریکی ایما پر فقط پختون قومیت کے متعصب دینی فکر ایک بڑے طبقے کو اپنا اسٹریٹیجک پارٹنر بنایا تو ایسے میں انڈیا نے اپنی توجہ پختونوں کے علاوہ دوسری قومیتوں پر دی اور بالخصوص تاجک قوم کو اپنے قریب کیا. جب طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو پاکستان کے اسٹریٹیجیکل پارٹنر اور ایسٹس پختونوں کی بھی ایک بڑی تعداد میں انڈیا کی گود میں جا بیٹھے. ہمیں تاجک اور ہزارہ کو دور رکھنے کے نقصان کا اندازہ اس وقت ہوا جب افغانستان میں بننے والی نئی حکومت میں وہ لوگ اوپر آئے جنکی انڈیا سے قربتیں اور تعلقات تھے۔

جس افغانستان کے لئے ہم نے اپنے ملک کا امن واقتصاد داو پر لگایا تھا اس افغانستان میں ہمارا دشمن پوری طاقت کے ساتھ ابھر کر برسرِ اقتدار آگیا تھا. لیکن ہم نے اس حقیقت سے اپنی عوام کو غافل اور ثانوی مسائل میں الجھائے رکھا. ہم اب قوم کو کیسے بتاتے کہ ہم نے فقط ایک تہائی کے بھی ایک حصے پر اعتماد کیا تھا اور دو تہائی کو تو یکسر نظر انداز کیا تھا اور اب وہ ایک تہائی بھی ہمارے دشمن کے اثر ونفوذ کا شکار ہے. بلکہ دشمن انہیں کے ذریعے آج ہمارے ملک کے امن کو تباہ کر رہا ہے. وہ ایک تہائی جنہیں ہم نے گلے لگایا تھا اب وہی ہمارے ملک میں ٹارگٹ کلنگ اور دھماکے کرتے ہیں اور جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی جیسی اخوانی فکر رکھنے والی تنظیمیں ان کی سہولتکار بنی ہوئی ہیں۔

انٹرنیشنل میڈیا میں شایع ہونے والی رپورٹس اور خبروں کے مطابق آج کل افغانستان کی اہم شخصیات سعودی عرب کے خصوصی دورے کر رہی ہیں اور گذشتہ سال سعودی وفود بھی کردستان عراق کے خفیہ دورے کر چکے ہیں۔

میڈیا ذرائع کے مطابق افغانستان سیکورٹی کونسل کے مشیر حنیف اتمر نے سعودی عرب کا رسمی دورہ کیا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی. سعودی اخبار الشرق الاوسط سے گفتگو کرتے ہوئے حنیف اتمر نے کہا کہ اس دورے کا مقصد دوطرفہ برادرانہ تعلقات کو فروغ دینا ہے اور خطے میں امن قائم کرنے میں سعودیہ کا بنیادی کردار ہے. افغانستان اس وقت دہشتگردی کا شکار ہے. اور دھشتگردی کے خلاف جنگ میں سعودیہ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے. امت مسلمہ میں ایک سربراہی کردار کی حیثیت سے ہم امیدوار ہیں کہ سعودیہ افغانستان میں قیام امن اور دھشتگردی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا. خدا کرے یہ بات صحیح ہو لیکن جو چھپایا گیا ہے وہ کہیں زیادہ ہے۔

انٹرنیشنل میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی عرب ایک سال سے داعش کو عراق سے افغانستان منتقل کرنے میں بالخصوص شمال افغانستان منتقل کرنے میں مصروف ہے تاکہ کہ یہ خبریں پھیلنے نہ پائیں۔

اوکو بلنٹ روسی سائٹ نے رپورٹ نشر کی تھی کہ گزشتہ سال دیوان ملکی سعودیہ کے مشیر ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالعزیز بن محمد الربیعہ نے کردستان عراق کا دورہ کیا اور مسعود بارزانی سے ملاقات کی. اس کے بعد ایک اجلاس ہوا جس میں اربیل میں سعودی کونسلر عبدالمنعم عبدالرحمن محمود ، کردستان سیکورٹی کے مشیر مسرور بارزانی پاکستانی وزارت دفاع کے سیکرٹری جنرل ریٹائرڈ ضمیر الحسن شاہ اور سعودی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے سربراہ کے نائب میجرجنرل احمد حسن عسیر نے شرکت کی۔

یہ اجلاس جو بتاریخ 2/5/2017 کو کردستان سکیورٹی کونسل کے مرکز میں منعقد ہوا. اور اس کا ایجنڈا پاکستان ، کردستانی اور سعودی انٹیلیجنس کے تعاون سے داعش کو موصل سے شمال افغانستان منتقل کرنے کا پروگرام تشکیل دینا تھا۔

سعودیہ نے اس منصوبے کی تکمیل کے لئے 80 ملین ڈالرز کا بجٹ فراہم کیا اور اس اجلاس میں طے پایا کہ 1800 داعشی موصل سے شمال افغانستان بھیجنے کے لئے پہلے عراق کے اربیل ائرپورٹ سے پاکستان بھیجے جائیں گے اور وہاں سے افغانستان منتقل کئے جائیں گے۔

رپورٹس میں آیا ہے کہ اخوانی فکر کے حامل لیڈرز عبد رب الرسول سیاف اور گلبدین حکمتیار بھی حنیف اتمر سے پہلے سعودی مسئولین کی رسمی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں اور اہم شخصیات بالخصوص محمد بن سلمان سے ملاقات کر چکے ہیں۔

عرب میڈیا کے مطابق حکمت یار اور سعودی مسئولین کے مابین طے پایا ہے کہ جبھۃ النصرۃ (القاعدہ) اور جیش العدل کی لیڈرشپ کو افغانستان منتقل کیا جائے گا. اس منصوبے کے تحت تکفیری دہشتگردوں کو دو مرحلوں میں منتقل کیا جائے گا. پہلے مرحلے میں ان دونوں گروہوں کے لیڈروں کو امریکی طیاروں کے ذریعے افغانستان منتقل کیا جائے گا اور دوسرے مرحلے میں انکے عام دہشتگردوں کو تاجکستان اور پاکستان کی سرحدوں سے افغانستان بھیجا جائے گا۔

عبدالرسول سیاف نے سعودی فرمانروا ملک سلمان کے دینی امور کے مشیر عبداللہ مطلق اور صالح السیحیباتی سے بھی ملاقات کی. سیاف شمال افغانستان کا ایک تاجک جنرل اور عسکری راہنما ہے اور حکمتیار افغانستان میں اخوانی فکر اور حزب اسلامی (جماعت اسلامی) کا رہنما ہے۔

تاجک قومیت کے پرانے اور پختون قومیت کے انڈیا سے نئے تعلقات اور ہزارہ قبیلے پر پاکستان وافغانستان میں آئے دن حملے پاکستان کے امن واستقلال کے لئے ایک بنیادی تھریڈ ہیں. اس وقت پاکستان کے خلاف امریکی ، اسرائیلی ، سعودی ، افغانی اور انڈین گٹھ جوڑ اور پاکستان کی کالی بھیڑوں کی شرکت ہمارے وطن کی سلامتی کے لئے نیا چیلنج ہے۔

اس وقت پاکستان کے افق پر سیاہ گھٹائیں گردش کر رہی ہیں. ایسے حالات میں پاکستانی عوام کو صحیح حالات اور صورتحال سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے. ملک کے حکمرانوں اور مقتدر اداروں کے مابین افہام وتفہیم کی فضا قائم کرنا اور ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی مشترکہ اسٹریٹجی تیار کرنا اور اس کا میکنزم بنانا اور حکومت ومحب وطن عوام اور مسلح افواج کے مابین انسجام سے ہی یہ مرحلہ عبور کیا جا سکتا ہے. دنیا میں دوست ممالک بالخصوص ہمسایہ قابل اعتماد برادر ملکوں سے قریبی تعلق وتعاون وقت کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ امریکہ واسرائیل اور انکے اتحادی ، لیبیا وعراق وشام کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کے بعد اب انکے منحوس قدم پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں .پاکستان اور چین کا باھمی اقتصادی تعاون ان سے برداشت نہیں ہو رہا. ٹرامپ و حکمتیار ایک ہی طرز کے بیانات داغ رہے ہیں۔

30 جنوری 2018 کو ایرانی سپریم لیڈر نے خبر دار کیا تھا کہ امریکا افغانستان میں اپنے عسکری وجود کو باقی رکھنے کے جواز کے طور پر عراق اور شام میں شکست کے بعد داعش کو افغانستان منتقل کر رہا ہے اور اس سے پہلے اور بعد کئی ایک ایرانی اور روسی مسئولین بھی اس بات کا اظہار کر چکے ہیں اور یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ خطے کے امن کے لئے داعش کی اس منتقلی کو روکا جائے۔

پاکستان کی قومی سلامتی کے ضامن اداروں اور عوام کو اپنے ملک کے خلاف ابھرتے ہوئے نئے خطرات کو بروقت محسوس کرتے ہوئے مناسب جوابی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔

تحریر : ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری