کالاباغ ڈیم : حقائق نامہ سوال جواب


کالاباغ ڈیم : حقائق نامہ سوال جواب

کالاباغ ڈیم پر جتنے اختصار سے ممکن تھا تفصیلات سے آپ کو آگاہ کر رہا ہوں۔

خبر رساں ادارے تسنیم یہ مقالہ اپنی بیگم صاحبہ کی فرمائش پر اپنی آنے والی نسلوں کے لیئے اپنا قومی حصہ سمجھ کر لکھ رہا ہوں تاکہ اگر کل کو میری آنے والی نسل مجھ سے سوال کرے کہ پاکستان کے لیئے آپ نے کوئی کاوش کی تو مسعودچوہدری یہ مقالہ دکھا سکے اور اپنی کاوش دکھا سکے۔ نو تاریخ کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں کالاباغ ڈیم پر ازخود نوٹس کی سماعت ہے۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ تحریر شیئر کریں لیکن اس تحریر میں موجود معلومات کو جتنا ممکن ہو شیئر کریں تاکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی راہ ہموار ہو سکے۔ اگر راقم کا نام کسی پاکستانی کو نہیں پسند تو نام ہٹا کر بھی شیئر کرنے کی مکمل اجازت ہے۔ 

سوال: کالاباغ ڈیم کا نام کالاباغ ڈیم کیوں رکھا گیا؟

جواب: کالاباغ ڈیم کا نام کالاباغ ڈیم اسکے کالاباغ کے قصبہ کی حدود میں ہونے کی مناسبت سے رکھا گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے منگلا کے مقام پر منگلا ڈیم اور تربیلا کے مقام پر تربیلا ڈیم کا نام رکھا گیا۔

سوال: کیا یہ درست ہے کہ کالاباغ ڈیم کے لیئے نواب آف کالاباغ نے زمین عطیہ کی؟

جواب : تاریخ کا درست کیا جانا انتہائی ضروری اور اہم ہوتا ہے تاکہ شکوک و شبہات جنم نہ لے سکیں ۔ ملک امیر محمد خان عرف نواب آف کالا باغ 20 جون 1910 کو کالا باغ میں پیدا ہوئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ 1958ء کے مارشل لا کے بعد جب ملک میں زرعی اصلاحات نافذ ہوئیں تو انھوں نے کالا باغ کی زرعی جائداد میں سے بائیس ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین زرعی کمیشن کے سپرد کر دی۔ اس وقت تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ زمین ڈیم کے لیئے انتہائی موزوں قرار پائے گی۔ یکم جون 1960ء کو صدر ایوب خان نے انھیں مغربی پاکستان کا گورنر مقرر کیا۔ ستمبر 1966ء میں مستعفی ہوئے۔  اور اسکے اگلے ہی سال اپنے بیٹوں کے ہاتھوں قتل کر دیئے گئے۔

اگر مشہور حکایات کی بات کی جائے تو دریائے سندھ اور ملک امیرمحمد خان المشہور نواب آف کالاباغ کے محل کے ایک جانب ایک پرانا قبرستان ہوا کرتا تھا اور نواب صاحب کی خواہش تھی کہ انکے محل کی سیڑھیاں دوسری جانب سے بھی دریائے سندھ میں اتریں لہذا انہوں نے قبرستان مسمار کروا کر مردوں کی ہڈیاں دریا برد کر دیں اور وہاں ایک عالیشان عمارت تعمیر کی ۔ کہتے ہیں کہ جب قبرستان مسمار کیا گیا تو نواب صاحب کے محل کی سیڑھیوں کے ساتھ ایک باریش لاش پائی گئ ۔ نواب صاحب نے اسے دور کر کے پھکوایا لیکن لاش اگلے روز پھروہاں ہی پائ گئی۔ اسکے بعد اس لاش کو کالاباغ کے کسی اور قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ اسی طرح کی ایک حکایت یونس خان ڈائیریکٹر انجینئرنگ ریڈیو پاکستان بھی منقول ہے۔ کیا حسین اتفاق ہے کہ آج وہ نامعلوم باریش انسان جسکی لاش کالاباغ کے سب سے طاقتور شخص نے حقارت کے ساتھ معمولی قبرستان میں دفن کروائ تھی ملک امیر محمد خان المشہور و معروف نواب آف کالاباغ کا قبرستان میں ہمسایہ ہے۔ 

سوال: کالا باغ ڈیم سے کتنی بجلی پیدا ہوگی؟

جواب: چونتیس سو میگاواٹ۔

سوال: کالا باغ ڈیم سے بجلی کی پیداوار کی لاگت کیا ہو گی؟

جواب: دوروپیہ فی یونٹ۔

سوال: کالاباغ ڈیم کی لاگت کیا ہو گی؟

جواب:دو ہزار چار میں کالاباغ ڈیم کی لاگت کا تخمینہ چھ ارب ڈالر لگایا گیا۔ موجودہ کرنسی ریٹ کے مطابق اگر حساب کیا جائے تو صرف چھ سو چھیانوے ارب روپیہ۔ اب تک ایک ارب روپیہ اس پراجیکٹ پر اخراجات کیئے جا چکے ہیں۔  اگر قرضہ لیا گیا تو اس پر دیا جانے والا سود اس کےعلاوہ ہو گا۔ اگر تعمیر کا ٹھیکہ کسی بین الاقوامی کمپنی کو دیا گیا تو کمیشن اور دیگر معاملات کی وجہ سے بڑھنے والا بوجھ بھی اس کے علاوہ ہو گا۔ موجودہ حالات میں درست طور پر اس ڈیم کی کل لاگت آٹھ ارب ڈالرآنے کا امکان ہے۔ اگر منصوبہ شروع کیا جاتا ہے تو چھ سال میں یہ لاگت ملکی وسائل سے حاصل کرنا بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ اگر پاکستانی قوم نیلم جہلم پراجیکٹ کے لیئے سرچارج دے کر اپنی جیب سے ڈیم بنا سکتی ہے تو کالاباغ ڈیم کے لیئے بھی پیسے دے سکتی ہے لیکن اس کے لیئے قومی اعتماد کی اشد ضرورت ہے۔

سوال: کالاباغ ڈیم کہاں واقع ہے؟

جواب:  میانوالی کے نزدیک علاقہ کالاباغ کے مقام پر دریائے سندھ کا جناح بیراج موجود ہے۔ یہ بیراج کالاباغ ڈیم کا حصہ بنایا جاناطے ہے۔

سوال: کالاباغ ڈیم کی کل اونچائی کیا ہے؟

جواب: کالاباغ ڈیم کی کل اونچائی دوسوساٹھ فٹ ہے۔

سوال : کتنی زیر کاشت زمین کالاباغ ڈیم کی وجہ سے متاثر ہو گی؟

جواب: پنجاب کی کل بیالیس ہزار ایکڑ زمین جس میں سے تقریبا تین ہزار ایکڑ زیر کاشت ہے اور خیبر پختونخواہ کی کل تین ہزار ایکڑ اراضی  جس میں سے صرف سو ایکڑ زیر کاشت ہے کالاباغ ڈیم کی تعمیرکی وجہ سے متاثر ہو گی۔

سوال: کیا کالاباغ ڈیم کی وجہ سے مردان، پبی، اور صوابی کی نکاسی آب کا نظام متاثر ہو گا؟

جواب: کالاباغ ڈیم کا کنژرویژن لیول نوسوانیس فٹ پر ہے جو کہ مردان، صوابی، اور پبی تینوں علاقوں سے نیچا ہے۔ لہذا ان علاقوں کا نکاسی آب کا نظام بالکل بھی متاثر نہیں ہو گا۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے نوشہرہ، چارسدہ، پبی، مردان اور صوابی کالاباغ ڈیم کے نتیجہ میں پانی میں ڈوب جائیں گے۔ کیا یہ درست ہے؟

جواب: جی نہیں ! یہ بالکل درست نہیں ہے۔ کالاباغ ڈیم کی ریزروائر کا سب سے اونچا حصہ نوسوپندرہ فٹ پر ہے اور وہ بھی اس وقت جب کہ ڈیم سو فیصد بھر چکا ہو گا جبکہ نوشہرہ کا نیچا ترین حصہ نوسوچالیس فٹ، چارسدہ کا نوسوپچپن فٹ، پبی نوسوساٹھ فٹ ، مردان نوسوسترفٹ،  اور صوابی ایک ہزار فٹ پر ہے۔ لہذا برے ترین حالات میں بھی پانی ان تمام علاقوں سے نیچا ہی رہے گا اور یہ علاقے بہر صورت کالاباغ ڈیم کی ریزروائر سے اونچے ہی رہیں گے۔ اس کے باوجود بھی یہ امر قابل غور ہے کہ کالاباغ ڈیم کی زیادہ سے زیادہ اونچاٗی نوسوپچیس فٹ ہونی تھی لیکن تحفظات کی بنا پر کالاباغ ڈیم کی ریزروائر میں تبدیلیاں کی گئیں اور اسے دس فٹ مزید نیچا کر دیا گیا تاکہ خیبر پختونخواہ کے خدشات دور ہو جائیں۔

یاد رہے کہ ان علاقوں کی انیس سو انتیس کی فلڈ لائن نوسوپینتیس فٹ پر ہے جسکا مطلب ہے کہ اس علاقہ میں سیلاب کی وارننگ اس لیول پر پانی کے پہنچنے پر دی جائے گی ۔ کالاباغ ڈیم اس لیول سے بیس فٹ نیچا رہے گا اور نوشہرہ اس لیول سے پانچ فٹ اونچا ہے۔

سوال: کالاباغ ڈیم بھرنے کے لیئے پانی ہی نہیں ہو گا؟

جواب: ہر سال کوٹری بیراج سے پینتیس ملین ایکڑ فٹ پانی گزر جاتا ہے ۔ اس پانی سے چھ کالاباغ ڈیم بھرے جا سکتے ہیں ۔ یاد رہے کہ یہ پانی ہم ضائع کر دیتے ہیں اور یہ سیلابی صورتحال کے علاوہ ہے۔

سوال: کالاباغ ڈیم بننے کی وجہ سے کیا سندھ صحرا میں تبدیل ہو جائے گا؟

جواب: تربیلا اور منگلا ڈیم بننے سے پہلے سندھ کی نہریں سندھ کے کسانوں کو چونتیس ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا کرتی تھیں جبکہ ان دونوں ڈیموں کے بننے کے پینتالیس ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا کرنے لگیں ۔ کالاباغ ڈیم کے بننے کی وجہ سے تین ملین ایکڑ فٹ مزید پانی سندھ کی نہروں کے حوالے کیا جا سکے گا۔لہذا یہ کہنا کہ سندھ صحرا بن جائے گا، بالکل غلط ہے بلکہ سندھ کے کسان کا فائدہ ہو گا۔

سوال: کالاباغ ڈیم بننے سے دریائے سندھ میں مچھلی کمیاب ہو جائے گی؟

جواب: یہ بالکل درست نہیں ۔ سٹڈیز سے معلوم ہوا ہے کہ برے ڈیم بننے سے مچھلی کے کاروبار سے وابسطہ افراد کے روزگار کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ پہلے سے بڑھ جاتا ہے کیونکہ ڈیم میں بھی مچھلی کو افزائش کا موقع ملتا ہے اور آخر کار وہ دریا کا حصہ بن جاتی ہے۔

سوال: سندھ کا ایک اعتراض یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم کی رائلٹی پنجاب کو جائے گی جبکہ یہ وفاق کا تعمیر کردہ منصوبہ ہے؟

جواب: اس اعتراض پر قانون سازی ہو چکی ہے اور تمام صوبے اپنا اپنا حصہ وفاق سے حاصل کریں گے۔ کسی صوبہ کی حق تلفی نہیں ہو گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور اقتدار میں یہ قانون سازی کی جا چکی ہے۔

سوال: پائپنگ کے زریعہ چالیس سے پچاس ملین ایکڑ فٹ پانی بچا کر قابل استعمال لایا جا سکتا ہے جسے ہم ضائع کر دیتے ہیں۔ پہلے ایساکیوں نہیں کر لیا جاتا؟

جواب: یہ سوال بالکل درست ہے اور مستقبل میں ہمیں ایسا کرنا ہو گا تاکہ ہمارا پانی ضائع نہ ہو ۔ ایک قطرہ بھی نہیں ۔ لیکن یہ وقت طلب اور سرمایہ طلب کام ہے۔ یہ بالکل آسان نہیں ہے۔ اس کے لیئے ہمیں کالاباغ ڈیم جیسے دس ڈیموں کے برابر کی محنت، منصوبہ بندی، اور سرمایہ درکار ہو گا۔ یہ قیاس ہے ۔ اس سے زیادہ بھی درکار ہو سکتا ہے۔ ہم میں سیاسی پختگی اتنی نہیں کہ ہم اتنا بڑا منصوبہ ایک دم سے شروع کر لیں اور اسے آنے والی حکومتیں جاری رکھیں اور ایک دن وہ پایہ تکمیل کو ہہنچ جائے۔ لہذا فی الحال ایک ڈیم ہی بنا لیں تو بہت بڑا پہاڑ ہے جو سر ہو جائے تو بہت ہے۔

سوال: کالاباغ ڈیم کی تاریخ کیا ہے؟

جواب: سن 1958 میں جب صدر ایوب کا مارشل لاء آیا تو اس وقت ملک میں کوئی ڈیم نہیں تھا.
صدر ایوب نے فوری طور پر حکم دیا کہ ڈیم بنانے کے لئے سروے کیا جائے. چھ مہینے کے انتہائی مختصر وقت میں سروے مکمل کر لیا گیا. سروے ٹیم نے دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے اوپر متعدد مقامات کی نشاندہی کی جہاں ڈیم بنائے جا سکتے تھے تاہم فوری طور پر دریائے جہلم پر منگلا اور دریائے سندھ پر تربیلا و کالاباغ ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

منگلا، تربیلا اور کالا باغ . . . یہ تینوں مقامات منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو یہ تینوں‌ ڈیم ملک کے وسط میں واقع تھے. لہذا ان ڈیموں سے پورے ملک کو آسانی سے بجلی سپلائی کی جا سکتی تھی. اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ان تینوں مقامات پر ڈیموں کو با آسانی ملک کے نہری نظام سے جوڑا جا سکتا تھا اور ان ڈیموں کے پانی کو زراعت کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔

ابتدائی طور پر دریائے جہلم پر واقع منگلا ڈیم کی تعمیر کا فوری طور پر آغاز کر دیا گیا جبکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ تربیلا اور کالاباغ ڈیم باری باری بنا لئے جائیں.

تربیلا اور کالا باغ ڈیم میں سے پہلے تربیلا ڈیم بنانے بنانے کا فیصلہ کیا گیا.

کالا باغ ڈیم سے پہلے تربیلا ڈیم پہلے بنانے کی دو وجوہات تھیں.

پہلی وجہ یہ تھی کہ ورلڈ بنک ڈیم بنانے کے لئے قرض دینے پر رضامند ہو گیا تھا. تو حکومت نے سوچا کہ چونکہ تربیلا ڈیم پر پیسے کالا باغ ڈیم سے زیادہ لگنے ہیں لہذا ورلڈ بنک کے کھاتے سے تربیلا ڈیم بنوا لیتے ہیں. اور بعد میں کالا باغ ڈیم اپنی جیب سے بنا لیں گے.

دوسرے وجہ یہ تھی کہ ایوب خان کے سیاسی مخالف راجہ سکندر زماں نے تربیلا اور آس پاس کے لوگوں میں سیاسی گڑ بڑ پیدا کرنا شروع کر دی تھی. لہذا یہ بات سوچی گئی کہ ایوب خان کے دور اقتدار میں تربیلا کے لوگوں کا تعاون با آسانی حاصل کیا جا سکے گا. ہو سکتا ہے بعد میں اس ڈیم پر سیاست شروع ہو جائے، تو اس لئے پہلے تربیلا ڈیم ہی بناتے ہیں. اس وقت شائد کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ آنے والے دنوں میں کالا باغ ڈیم بنانے میں جو سیاسی مشکلات سامنے آئیں گی وہ شائد تربیلا ڈیم کا عشر عشیر بھی نہیں.

قصہ مختصر تربیلا ڈیم پر کام شروع ہو گیا. جو کہ بخیرو خوبی مکمل ہو گیا.

اس کے بعد ملک میں سیاسی تبدیلیوں کا ایسا دور شروع ہوا کہ ڈیموں والی بات آئی گئی ہو گئی.

اس کے بعد ذالفقار علی بھٹو سے لے کر پیپلز پارٹی کے پچھلے دور حکومت میں جب جب کالاباغ ڈیم کی بات ہوئی سیاسی مخالفت کی ایسی آندھی چلی کہ کالاباغ ڈیم کی بیل منڈھے نی چڑھ سکی. خاص طور پر سندھ اور خیبر پختونخواہ کالاباغ ڈیم کے بڑے مخالف کے طور پر سامنے آئے۔

چاروں صوبوں کے وزائے اعلیٰ نے مشترکہ مفادات کونسل میں پانی کی تقسیم کے معاہدے پر 16 مارچ 1991ءکو دستخط کیئے اور باقاعدہ طور پر صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا فارمولہ منظور کیا۔ طے پایا گیا کہ دریائے سندھ اور دیگر دریاﺅں پر کالا باغ ڈیم سمیت چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جائینگے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے بعد صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ میرافضل خان نے کہا کہ "ہم مطمئن ہیں۔ پہلے ہماری 18لاکھ ایکڑ اراضی آبپاشی سے کاشت ہوتی تھی اب 9 لاکھ ایکڑ اراضی مزید سیراب ہو گی۔ یہ خوشی کی بات ہے۔" یعنی کل ستائیس لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو گی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ولی خان نے کہا کہ "میں پانی کے معاہدے سے مطمئن ہوں۔"

سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق نے کہا کہ "معاہدے کی بدولت 4.5 بلین ایکڑ فٹ پانی مزید ملے گا۔" بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ "ہم بہت خوش ہیں ۔ تربیلا اور منگلا کی وجہ سے چھ لاکھ ایکڑ اراضی سیراب کر رہے تھے۔ اس معاہدے کی بدولت مزید 10 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو گی" یعنی کل سولہ لاکھ ایکڑ اراضی کے لیے پانی میسر آئے گا۔

لیکن پھر کیا ہوا؟ یہ اتفاق و اتحاد دشمن کو ہضم نہیں ہوا۔ کچھ عرصہ بعد ہی برطانیہ سے ایک ٹیم نوشہرہ آئی اور نوشہرہ کے مکانوں کی چھتوں پر نشان لگانے شروع کر دیئے۔ خبر پھیلی کہ کالاباغ ڈیم بننے سے نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ جبکہ یہ امر قابل غور ہے کہ وہ نشانات ڈیم کی سیٹلائٹ امیجنگ کے لیئے تھے تاکہ ریسرچ اسٹڈی مکمل کی جا سکے اور گرائونڈ بریکنگ کے بعد کام کا آغاز ہو سکے۔ اس وقت سیٹلائٹ امیجنگ چند ایک ممالک کے پاس اور صرف چند ایک مخصوص مقاصد کے لیے ہی ممکن تھی۔ پاکستان مخالف لابیز متحرک تو پہلے ہی تھیں لیکن انہیں ایک موقع مل گیا عام عوام کو گمراہ کرنے کا۔ مخالفت کی ایسی آندھی چلی کہ آج کالاباغ ڈیم کا نام لیں تو لوگوں کے سینوں میں نفرت کی آگ لگنی شروع ہو جاتی ہے۔

صرف ایک واقعہ بیان کرنا یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ پشاور یونیورسٹی کے طلباء کو باقاعدہ تنخواہ پر رکھا گیا جو کہ روزانہ کی بنیادوں پر نوشہرہ شہر جاتے اور کھمبوں پر چڑھ کر نشانات لگاتے۔ پھر اس علاقہ سے تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جاتا اور انہیں یہ نشان دکھا کر کہا جاتا کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو پانی یہاں تک آ جاؑے گا۔ سادہ لوح لوگ اس پراپوگنڈا کیمپین کا حصہ بن گئے اور یوں کالاباغ ڈیم کا منصوبہ سرد خانے کی نظرہوگیا۔ آج تک اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکا کہ کون پشاور یونیورسٹی کے طلباء کے اخراجات برداشت کر رہا تھا؟ اور کون انہیں اس ساری کہانی سازی کے پیچھے تھا؟ 

اس کے بعد دوہزارچار پانچ میں پرویز مشرف صاحب کو بھی خیال آیا کہ اس ڈیم کو بنا دینا چاہیئے لیکن نادیدہ وجوہات کی بنا پر مشرف صاحب بھی اس منصوبہ کا افتتاح نہ کر سکے۔ دسمبر 2005ء میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ، “وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ بند تعمیر کر کے رہیں گے“۔ جبکہ 26 مئی 2008ء کو وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے ایک اخباری بیان میں کہا، “کالاباغ بند کبھی تعمیر نہ کیا جائے گا“ انھوں نے مزید کہا، “صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقین کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ قابل عمل نہیں رہا۔“

اس وقت حالات یہ ہیں کہ ن لیگ جو کہ ماضی میں کالاباغ ڈیم کی سب سے بڑی حمایتی دکھائی دیتے تھے وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے صوبہ سندھ میں سندھڑی کے مقام پر بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کی طرح سندھ کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے پیغام دیئے۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ سندھی نہیں چاہتے تو کالا باغ ڈیم تعمیر نہیں کیا جائیگا اور سندھ کی محبت میں 100ڈیم قربان کرنے کا عندیہ بھی دیا۔

اے این پی کی تو مکمل سیاست اسی ڈیم کی مخالفت پر ٹکی ہوئی ہے ۔ جبکہ ماضی میں کالاباغ ڈیم کے لیئے راہ ہموار کرنے والے عمران خان بھی اس معاملہ پرتاحال  خاموش ہیں۔

سوال: کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں کتنے لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑے گی؟

جواب : ایک لاکھ پاکستانیوں کو۔ 

سوال: کالاباغ ڈیم کسطرح سیلاب کی تباہ کاریوں کو روک سکتا ہے؟

جواب: دنیا بھر میں بڑے ڈیم سیلاب کی تباہ کاریوں کے خلاف سب سے موئثر ہتھیار گردانے جاتے ہیں ۔ دوہزار دس میں آنے والے سیلاب میں کل ایک سو ملین ایکڑ فٹ پانی کا بہائو ریکارڈ کیا گیا۔ یہ پانی نہ صرف بارہ بالکل خالی بڑے ڈیم بھرنے کے لیئے کافی تھا بلکہ مستقبل کے لیئے ذخیرہ فراہم کرنے کا بھی باعث بن سکتا تھا۔ 

سوال: کالاباغ ڈیم میں کل کتنا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہو گی؟

جواب: کالاباغ ڈیم میں زیادہ سے زیادہ پانی کا ذخیرہ آٹھ ملین ایکڑ فٹ کیا جا سکتا ہے جیسے کہ سیلاب کے دنوں میں پانی کا زخیرہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم از کم کیا جا سکے جبکہ عام حالات میں ڈیم میں پانی کا ذخیرہ چھ ملین ایکڑ فٹ کے لگ بھگ رکھا جانا طے ہے۔ جبکہ نوے ملین ایکڑ فٹ قابل استعمال پانی سالانہ آبپاشی اور دیگر استعمالات کے لیئے میسر آئے گا۔

سوال: کالاباغ ڈیم کی سائٹ ڈیم کے لئے کیوں موضوں ہے؟

جواب: کالاباغ ڈیم کے نقشہ کا اگر معائنہ کیا جائے تو ایک بات واضع ہوتی ہے کہ کالاباغ ڈیم کی سائیٹ تین اطراف سے پہاڑوں میں گھری ہے اور انہیں میں سے دریائے سندھ چشمہ بیراج کی طرف بڑہتا ہے ۔ یہ بہترین جگہ ہوتی ہے کسی بھی ڈیم کے لیئے اور بلا شبہہ یہ قدرت کا تحفہ ہوا کرتا ہے۔ اگر اسی طرح کا ڈیم ایک میدانی علاقہ میں بنایا جائے تو اسکی لاگت اسی گنا بڑھ جائے گی۔ ہمیں قسرت نے مفت میں نوازا ہے لہذا مفت میں ملی نعمت کی قدر کرنا شاید ہم نے سیکھا ہی نہیں۔

سوال: سیزنل کیری اوور ڈیم کیا ہے اور کالاباغ ڈیم کا اس سے کیا تعلق ہے؟

جواب: کالاباغ ڈیم ایک سیزنل کیری اوور ڈیم کی طرح کام کرے گا۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ پانی کا ذخیرہ صرف اس صورت میں کیا جائے گا جب دریا میں سیلابی صورتحال ہو گی جبکہ باقی ماندہ عام دنوں میں پانی کا ذخیرہ نہیں کیا جائے گا اور دریا کی روانی پر اثر انداز ہوئے بغیر ڈیم سے فوائد حاصل کیئے جائیں گے۔

سوال: کیا کالاباغ ڈیم بننے سے نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا؟

جواب: نوشہرہ شہر کالاباغ ڈیم کی سائٹ سے ایک سو دس کلومیٹر دور اور ساٹھ فٹ اونچا ہے۔ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ڈیم کے بننے کی صورت میں نوشہرہ شہر کو کوئ خطرہ لاحق ہو۔

سوال: کیا کالاباغ ڈیم بننے سے دریائے سندھ خشک ہو جائے گا؟

جواب: اس سوال کے جواب میں دریائے سندھ سے متعلق چند حقائق جان لیں ۔ دریائے سندھ سطح سمندر سے پانچ ہزار ایک سو تیراسی میٹر بلندی پر تبت کی ایک جھیل مانسرور(جھیل ماناساروار)کے قریب سے اپنے سفر کی ابتداء کرتا ہے۔ یہ دریا لدّاخ اور گلگت بلتستان سے گزرتا ہوا صوبہ خیبرپختونخوا میں داخل ہوتا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں اسے اباسین بھی کہتے ہیں جس کا مطلب ہے دریاؤں کا باپ۔ کل نو لاکھ چالیس ہزارکلومیٹر کا رقبہ اسے حجم میں دنیا کے بڑے ترین دریائوں میں سے ایک بناتا ہے۔ سمجھنے کے لیئے بتاتا چلوں کہ یہ دریائے کولاراڈو جس پر میکسیکو اور امریکہ کی زیادہ تر زراعت منحصر ہے اس سے دس گنا اور دریائے نیل سے دوگنا بڑاہے۔بحیرہ عرب تک کے بتیس ہزار کلومیٹر کے سفر میں دس بڑے دریا کابل، سوات، کنہار، ہارو، سوان، جہلم، چناب، راوی، ستلج ، اور بیاس ملتے ہیں۔ پانچ سو کلومیٹر صوبہ سندھ پر مشتمل ہے۔ کل دوسوملین ایکڑ فٹ سے ایک سو بیس ملین ایکڑ فٹ پانی اپنے اندر سماتا ہے۔ پانی کے استعمال کے لیئے چودہ کروڑ لوگوں کا انحصار اس دریا پر ہے۔

دریائے کولاراڈو پر کالاباغ سے بڑے پندرہ ڈیم تعمیر ہیں اور دریا کے سالانہ کل بہائو کا پانچ گنا پانی ذخیرہ کرتے ہیں جبکہ اس کے باوجود بھی دریا پوری شان و شوکت کے ساتھ بہتا چلا آرہا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ دریائے کولاراڈو پر بناٗے جانے والے ڈیموں سے نکلنے والی نہروں اوراس پرتعمیر کردہ آبپاشی کے نظام کو موجودہ دنیا کا سب سے جدید نظام بھی گردانا جاتا ہے۔ اس نظام سے چار کروڑ لوگ فائیدہ اٹھا رہے ہیں۔  ہمارے پاس تو نہری نظام پاکستان کے بننے سے پہلے کا ہی ہے اور بے حسی و نا اہلی کا رونہ روتے روتے تو یہ آنکھیں سوکھ ہی چکی ہیں ۔ جبکہ دریائے نیل پر کالاباغ سے بڑے سات ڈیم تعمیرشدہ ہیں۔ ان میں سے پانچ کو ایک سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہونے کو آیا ہے لیکن دریائے نیل کی آب و تاب میں کچھ فرق نہیں پڑا۔

اب اس بات کو سمجھیں کالاباغ ڈیم دریائے سندھ پر بنایا جانا ہے لیکن ڈیم کا مقصد پانی ذخیرہ کرنا اور دریا کے بہائو سے سستی بجلی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ بعد میں زخیرہ شدہ پانی کو استعمال کیا جا سکے اور دریا کے بہائو سےفائدہ اٹھاتے ہوئے بجلی پیدا کی جا سکے۔ دریائے سندھ کے پانی کی ایک کثیر تعداد ضائع ہوتے ہوئے سمندر میں جا گرتی ہے۔ اگر اس میں سے کچھ پانی ذخیرہ کر لیا جاتا ہے اور بعد میں زیر استعمال لایا جاتا ہے تو دریائے سندھ اور اسکے پانی پر کاشتکاری کرنے والوں کوبہت زیادہ فائدہ ہو گا اور کسان خوشحال ہو گا۔

سوال : کیا کالاباغ ڈیم کی وجہ سے سمندر کا پانی کراچی اور سندھ کو ڈبو دے گا؟

جواب: کراچی سطح سمندر سے سات میٹر اونچا ہے۔ اور جیسے جیسے سندھ کے میدانی علاقوں کی طرف آتے جائیں یہ اونچائی بڑھتی جاتی ہے۔ دریا جب سمندر میں گرتا ہے تو چھوٹی چھوٹی نہروں میں تقسیم ہو جاتا ہے جسے ریور ڈیلٹا بھی کہتے ہیں ۔ یہ علاقہ تقریبا ایک کلومیٹر تک کا ہوتا ہے ۔ مدوجزر یعنی سمندر کے پانی کے دن میں پیچھے جانے اور رات میں زمینی علاقوں میں آگے آنے کی صورت میں بھی یہ علاقہ سمندر کے پانی کے نیچے نہیں آتا۔ لہذا کالاباغ ڈیم کے بننے کی وجہ سے سمندر کا پانی نہ صرف سندھ بلکہ کراچی شہر کو بھی کسی بھی طرح کا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اگر سمندر میں کوئی تبدیلی آتی بھی ہے تو اس کا اس ڈیم سے کوئی تعلق نہیں۔ 

سوال: کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر کتنا وقت درکار ہے؟

جواب: کالاباغ ڈیم کی تعمیر پانچ سال میں مکمل کی جاسکتی ہے کیونکہ اس منصوبہ کی فیزیبلٹی رپورٹ انیس سو چوراسی سے تیار کی جا چکی ہے اور منصوبہ بندی اسٹڈی بھی مکمل کی جا چکی ہے جبکہ صرف حکومتی اجازت نامہ درکار ہے۔ ماضی میں واپڈانے چھ سال کا وقت اس منصوبہ کی تکمیل کے لیئے مختص کیا تھا۔ چونکہ پاکستان میں سیاسی جماعت کو پانچ سال کے بعد الیکشن کی طرف جانا ہوتا ہے لہذا یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اس منصوبہ کے لیئے راہ ہموار کرنے کا فائدہ کسی دوسری جماعت کو نہ ہو جائے لہذا صرفِ نظر بہتر سمجھا گیا۔ اس کے علاوہ بھی کسی بھی میگا پراجیگٹ میں جلدی دو معاملات کو جنم دیتی ہے۔ پہلا پراجیکٹ کی لاگت بڑھ جاتی ہے اور دوسرا جلدی میں کرپشن کے راستے بھی کھل جاتے ہیں اور معیار پر بھی صرف نظر کیا جانا شروع ہو جاتا ہے۔ لہذا جلد بازی کے بجائے مطلوبہ وقت اور تخمینہ کے مطابق لاگت میں ہی منصوبہ مکمل کیا جانا چاہیئے اور معیار پر کسی صورت بھی صرف نظر نہیں کی جانی چاہیئے۔ 

سوال: کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے کتنے افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے؟

جواب : کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے تقریبا ایک لاکھ افراد کو بلواسطہ اور بلاواسطہ روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ 

سوال: کیا اکیلا کالاباغ ڈیم تمام پاکستان کی بجلی اور پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیئے کافی ہے؟

جواب: جی نہیں! اکیلا کالاباغ ڈیم تمام پاکستان کی بجلی اور پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیئے کافی نہیں ہے بلکہ دوہزار تیس تک پاکستان کو کالاباغ ڈیم جیسے کم از کم گیارہ مزید ڈیم تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان کو ایک جدید ترین آبپاشی کا نظام بھی تشکیل دینا ہو گا کیونکہ موجودہ آبپاشی کا نظام  ڈیڑھ سو سال پرانا ہے ۔ گو کہ یہ نظام کام تو چلا رہا ہے لیکن بس کام ہی چلا رہا ہے۔ موگہ سسٹم اور اس پر ہونے والی سیاست، کھالوں سے پانی کا ضیاع، سیم اور تھور کے مسائل ، اور ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں کے تدارک کے لیئے موجودہ نظام فرسودہ ہے اور اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے اور ٹیوب ویل کا استعمال نقصان دہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اب عمل شروع نہ کیا گیا تو شاید بہت دیر ہو جائے گی۔ مجھے افسوس ہے کہ یہ الفاظ لکھنے پڑ رہے ہیں لیکن حقیقت سے کب تک جان بچاتے رہیں گے۔

سوال : کالاباغ ڈیم نہ بنا کر ہم نے کتنا نقصان کیا ہے؟

جواب: کالاباغ ڈیم کی کل گنجائش چھ ملین ایکڑ فٹ کا اگر صرف پچھلے بیس سال کا تخمینہ لگایا جائے تو ایک سو بیس ملین ایکڑ فٹ پانی ہم نے ضائع کر دیا یعنی ایک سال کا پورا دریائے سندھ۔ جبکہ اڑھائی روپے فی یونٹ چونتیس سو میگا واٹ بجلی سالانہ نہ بنا کر ہم نے پچھلے بیس سال میں ارسٹھ ہزار میگاواٹ بجلی مہنگے داموں دیگر زرائع سے خریدی۔ اگر اس کی مالیت کا اندازہ لگایا جائے تو اربوں ڈالر بنتی ہے جو کہ اس پورے پراجیکٹ کی لاگت سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اگر واپڈا کے مہیا کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو تمام فوائد کی لاگت کل مل کر اسی ارب روپیہ سالانہ بنتی ہے۔ فرض کرتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم انیس سو تیراسی میں مکمل ہو گیا ہوتا تو آج پینتیس سال بعد کم از کم اٹھائیس سوارب روپیہ یعنی پچیس ارب ڈالر کا نقصان کر چکے ہیں ۔ یقین کریں اتنا ہم نے ڈائیریکت قرضہ بھی نہیں لیا جس پر ہم سود در سود ادا کر رہے ہیں۔ 

آخری سوال: کالاباغ ڈیم پاکستان کے لیے کیوں ضروری ہے؟

جواب: اس وقت پاکستان میں  کالاباغ ڈیم سے بھی بڑے ڈیم بننے جا رہے ہیں اور مستقبل میں آپ بڑے ڈیم بنتے ماتھے کی آنکھ سے دیکھیں گے لیکن یہ پاکستان کے لئے ایک منصوبہ سے زیادہ قومی ہمیت کا معاملہ ہے کیونکہ اس منصوبہ سے تمام صوبے جڑے ہیں اور ہمیں یہ پیغام تمام دینا بشمول ہمارے مخالفین و دشمن دینا ہوگا کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے ولاوں کو مل کر جواب دیا جائے گا۔ میری رائے میں جو کوئی بھی سیاسی بنیادوں پر اس منصوبہ کی مخالفت کر رہا ہے یا کرتا چلا آرہا ہے وہ پاکستان کا مخلص و وفادار کہلانے کا حقدار نہیں ۔ پاکستان سب سے پہلے ہے اور پاکستان کے مفاد کو سب سے پہلے رکھا جانا چاہیئے ۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس ڈیم کی مخالفت کی جاتی رہی جیسے کہ ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں جاری تھا۔اجلاس میں شریک اس وقت کے صوبہ سندھ کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے مطابق اجلاس میں اس وقت کے پنجاب کے وزیراعلی مرحوم غلام حیدر وائیں نے کہا تھا کہ اگر کالا باغ ڈیم کے نام پر اعتراض ہے تو اس کا نام ’جام ڈیم‘ رکھ لیتے ہیں جس پر سندھ کے وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ وائیں کے بنا جام بیکار ہے اور اس کا نام جام وائیں ہونا چاہیے۔

اس مذاق میں کہی گئی بات کی بنا پر اجلاس کے بعد جب بجٹ میں کالا باغ ڈیم کے لیے رقم مختص کی گئی تو جام صادق علی نے وزیراعظم نواز شریف کو اس پر احتجاجی خط لکھا تھا کہ ایسا نہ کریں۔ کالا باغ ڈیم کے متعلق ایک بار سندھ کے ایک سیاستدان رسول بخش پلیجو نے کہا تھا کہ اگر کالا باغ ڈیم کا نام ’مدینہ ڈیم‘ بھی رکھیں تو انہیں قبول نہیں ہوگا۔

ہمیں بطور پاکستانی قوم اب بڑا ہونا ہو گا اور اپنے دوست اور دشمن کو پہچاننا ہو گا وگرنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی ۔ ایسا نہیں کہ نتائج سے ہم اثر انداز نہیں ہوں گے۔ بالکل گلط فیصلوں کے اثرات ہمیں بھی بھگتنا ہوں گے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری