علامہ شہید عارف حسین الحسینی، انقلاب اسلامی اور امام خمینی


علامہ شہید عارف حسین الحسینی، انقلاب اسلامی اور امام خمینی

شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کا نام انقلاب سے قبل ہی داعی انقلاب حضرت امام خمینی کے پیغام کو پھیلانے والوں میں شامل ہو گیا تھا۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: جس دور میں امام خمینی نے اسلامی تحریک کا آغاز کیا ، یہ وقت اشتراکیت اورسرمایہ دارانہ نظام کے درمیان سرد جنگ کے عروج کا دور تھا. مسلمان ممالک بھی ان دو بلاکوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے تھے. کچھ نے سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی بلاک کی قیادت کرنے والے امریکہ کو اپنا آقا و مولاسمجھ لیا تھا تو کچھ کو اشتراکی نظام اور مشرقی بلاک کی قیادت کرنے والے سویت یونین کو اپنا نجات دھندہ سمجھ بیٹھے تھے. دنیا کے سیاسی و معاشی نظام کی بحث سے اسلام باہر تھا . اسلام جیسے آفاقی دین کو صرف مخصوص عبادات ، روایات اور رواجات کا مجموعہ اور قران  جیسی عظیم کتاب ہدایت کو عہدے رفتہ کے وا قعا ت کے تذکر اور ثواب کے حصول کا ذرئعہ سمجھ لیا گیا تھا.

اس دور میں جب عالم اسلام کے عظیم رہبر و رہنما  روح الله موسوی الخمینی نے ایران میں اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے بت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے عالم انسانیت کے مسائل کے حل کے لیے اسلام کو ایک متبادل نظام کے طور پر پیش کیا تو نہ صرف عوام بلکہ حوزہ ہائے علمیہ کی برجستہ علمی شخصیات ورطہ حیرت میں مبتلا ہو گئیں. بہت کم لوگوں کو اس پر یقین کامل تھا کہ شاہ ایران اور اس کے آقا امریکہ کو شکست دے کر عملا اسلامی نظام برپا کیا جا سکتا ہے.

پاکستان کو یہ عزاز حاصل ہے کہ ٢٥ نومبر ١٩٤٦ کو پاڑہ چنار کی غیور سرزمین کے علاقہ پیواڑ میں سید فضل حسین شاہ کے گھر میں  پیدا ہونے والے سید عارف حسین الحسینی ان عظیم شخصیات میں شامل ہیں جو امام خمینی کی تحریک کے آغاز سے ہی  امام خمینی اور ان کے پیغام حق کی معرفت حاصل کرتے ہوئے قافلہ حق میں شامل ہوئے اور باقی ماندہ زندگی انقلاب اسلامی کی ترویج اور دفاع کرتے ہوئے اپنی دیرینہ منزل شہادت پر فائز ہوئے.

سید عارف حسین الحسینی  ابتدائی دینی و دنیوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد  ١٩٦٧ میں نجف اشرف تشریف لے گئے. جہاں مولانا گل علی نے ان کی ملاقات اس وقت کے مجتہد اعظم حضرت آیتہ الله محسن الحکیم سے کرائی جو آپ کے خاندان پس منظر اور حصول تعلیم کے جذبہ سے بہت متاثر ہوئے. انہوں نے آپ کے حق میں دعا فرمائی اور اپنے ہر ممکن مدد کا یقین دلایا. نجف اشرف میں علامہ عارف مدرسہ عبدالعزیز بغدادی اور مدرسہ شبریہ سے علم حاصل کیا جہاں پر آپ نےجن اساتذہ سے فیض حاصل کیا ان میں  آغا شیخ موحدی، آغا شیخ اشرف اصفہانی ، شہید محراب حضرت آیتہ الله مدنی ، آغا لشکرانی اور آیتہ الله مرتضوی نمایاں ہیں. آپ حوزہ علمیہ قم میں بھی زیر تعلیم رہے جہاں آپ نے آیتہ الله شہید مرتضی مطاہری ، آقای ناصر مکارم شیرازی، آیتہ الله وحید خراسانی، آیتہ الله تبریزی اور آیتہ الله حرم پناہی سے تاریخ ، صرف و نحو ، منطق، اصول ، فلسفہ اور علم کلام کا درس لیا.

  جن دنوں میں سید عارف نجف اشرف میں اپنی علمی تشنگی بجھا رہے تھے ان دنوں امام خمینی نجف میں جلاوطنی کے دن کاٹ رہے تھے. صدام ، شاہ ایران اور امریکہ کے ہرکارے بیک وقت امام خمینی کی ہر حرکت پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے. انکی کوشش تھی کہ امام خمینی کے پیروکاروں میں اضافہ نہ ہونے پائے اور نہ ہی ان کے انقلابی افکار کی ترویج ہو سکے. عراقی حکومت امام خمینی کے درس میں جانے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے ہر طالب علم کا مکمل ریکارڈ رکھ رہی تھی. ایسے میں امام خمینی سے ذرا سی قربت کسی شخص کو بھی ایک بڑی مصیبت میں مبتلا کر سکتی تھی . یہی وجہ تھی کہ اکثر طالب علم امام خمینی سے دور دور رہنے میں آفیت سمجھتے. ان دنوں امام خمینی مدرسہ آیتہ الله بروجردی میں نماز مغربین کی امامت فرماتے. چند لوگ آپ کی اقتدا میں نماز ادا کر تے تھے. امام خمینی کی ذات سے علامہ عارف حسین الحسینی کے عشق کا یہ عالم تھا آپ نہ صرف باقاعدگی سے ان کی اقتدا میں نماز ادا کرتے بلکہ آپ کی کوشش ہوتی کہ آپ اگلی صف میں امام خمینی کے بلکل پیچھے کھڑے ہوں. آپ امام خمینی کے درس کو انتہائی غور سے سنتے اور واپس آ کر ساتھیوں کو سناتے اور انہیں درس میں شرکت کی اپیل کرتے. (١)

 امام خمینی اور ان کے پیغام کے ساتھ علامہ سید عارف حسین الحسینی گہری فکری ، جذباتی اور والہانہ وابستگی رکھتے تھے. یوں تو آپ ایک حلیم الطبع اور نرم خو انسان تھے ، لیکن جب بات امام خمینی اور ان کے افکار کی ہوتی اور کوئی شخص ان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا یا کمزوری کا مظاہرہ کرتا تو جلال سے آپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا . آپ امام خمینی اور ان کے اسلامی انقلابی پیغام کے خلاف کچھ بھی سننے کے روادار نہ تھے. آپ امام خمینی کے پیغام کو زمان و مکان کی قید سے آزاد ایک آفاقی پیغام سمجھتے تھے.

ایک مرتبہ جب کچھ پاکستانی طالب علموں نے یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں ایران ، عراق کے مسائل  اور ان سے جڑی متنازعہ سیاسی شخصیات سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہے کیونکہ یہ غیر ملکی معاملات ہیں اور ان میں مداخلت سے ہمارے لیے مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے تو آپ نے فرمایا "اے دوست آپ کا مذہب پاکستان سے تخلیق نہیں ہوا . یہ چشمہ ہدایت بھی عراق سے رواں ہوا تھا اور نواسہ رسول بھی پاکستانی نہیں تھے . ہم حق کے متلاشی اور ہر فرزند زہرہ کی صدائے ھل من ناصر پر لبیک کہنے والے ہیں . لہذا ہم حق کی خاطر اٹھنے والی ہر صدا چاہے وہ دنیا کے کسی کونے سے ہی کیوں نہ اٹھے اس کا ساتھ دیں گے . علما  کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ وہ مسجدوں میں صرف نمازیں پڑھوائیں ، اذانیں دیں  اور بچوں کو قرآن مجید پڑھائیں،  بلکہ کلمہ حق کہنا ، حق کا ساتھ دینا اور حق کے راستے میں صعوبتیں برداشت کرنا بھی ان کی ذمہ داری میں شامل ہے. دعا کرو فرزند زہرا خمینی دشمنوں کی نظر بد سے محفوظ رہیں اور کوشش کرو کہ آپ کے افکار کا چرچہ عام ہو .یاد رکھو کہ اگر خدانخواستہ اس رہبر کو کچھ ہو گیا تو پھر کئی برس تک کوئی عالم دین صدائے حق بلند نہیں کرسکے گا.  اور اگر بفضل خدا انہیں کامیابی حاصل ہو گئی تو پھر اسلام سرخرو اور علما کا تشخص سربلند ہو گا . لہذا توبہ کرو اور اپنے دل سے وسوسوں کو نکال دو . " (٢)  

آپ کے خلوص کی بدولت بعض طلبا امام خمینی کے درس میں شرکت کرنے لگے. یوں انقلاب سے قبل داعی انقلاب حضرت امام خمینی کے پیغام کو پھیلانے والوں میں شہید علامہ عارف حسین کا نام بھی شامل ہو گیا۔

امام خمینی کے ساتھ شہید  علامہ عارف حسین الحسینی  کے عشق کا یہ عالم تھا کہ جن دنوں لوگ امام خمینی کے سائے سے بھی ڈرتے تھے ، سید عارف ان کے پیچھے ایسے بازو پھیلا کر چلتے تھے گویا ان کے ذاتی محافظ ہوں. آپ کی یہ حالت دیکھ کر کسی دوست نے بھری محفل میں کہہ دیا کہ سید عارف حسین نے انگیٹھی کو سینے سے لگایا ہوا ہے. (٣ )

شہید عارف حسین الحسینی ایک مبارز و مجاہد عالم دین تھے جو حق کی خاطر جان دینا اور لینا بھی جانتے تھے. افکار امام خمینی کی ترویج کو فریضہ سمجھ کر بے لوث و بے غرض انداز میں انجام دیتے تھے. جن دنوں میں امام خمینی و انقلاب کا نام لینا عزت و تکریم و وسائل میں اضافے کا سبب نہیں بلکہ قید و بند کی صعوبتوں ، تکالیف و زندگی داو پر لگانے کا باعث تھا ، اس دور میں شہید حسینی پیغام خمینی کی ترویج کرنے والے ہر اول دستے میں تھے. ١٩٧١ میں شاہ ایران نے ڈھائی ہزار سالہ جشن شہنشائی منایا تو امام خمینی نے نجف اشرف میں شاہ ایران کے خلاف تقریر کرتے ہوئے فرمایا " اے شاہ ایران ، یہ ملک تمہارے باپ دادا کی جاگیر نہیں ، بلکہ امام زمانہ کا ملک ہے . اس کے اربوں روپے تمہارے خاندانی جشن کے لیے نہیں بلکہ غریب و مظلوم عوام کے لیے ہیں" . امام خمینی کی پرجوش تقریر کے بعد امام کے حامیوں نے شاہ ایران کو مذمتی ٹیلی گرام ارسال کیے . پاکستانی طلبا میں واحد سید عارف حسین تھے جنہوں نے شاہ کو پاکستانی طلاب کی جانب سے ٹیلی گرام بھیجا تھا . جس پر کچھ طلبا گروپ کی صورت سید عارف کے پاس آئے اور ٹیلی گرام بھیجنے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اس کے مضمرات کے مطلق بتلائے . پہلے تو شہید نے انہیں انتہائی نرمی سےسمجھایا ، لیکن جب بات سمجھ میں نہ آئی تو روایتی جلال میں سخت تنبہیہ کی جس کے بعد ان طلبا نے وہاں سے جانے میں ہی آفیت جانی . (٤ )  

سید عارف حسین ایک شجاع، نڈر اور دلیر عالم دین تھے. ١٩٧٣ میں حسن بکر کی بعثی حکومت نے آقای محسن الحکیم کو انقلابی سرگرمیوں کے باعث نظربند کر دیا. جب پاک و ہند کے طلبا کا مشترکہ وفد  ے آقای محسن الحکیم سے ملاقات کرنے گیا تو اس میں آپ بھی شامل تھے. جب وفد کوفہ میں ملاقات کے لیے پہنچا تو طلبا کے جلوس اور پولیس کے درمیان تصادم ہو گیا. سید عارف نے بعثی پولیس سے خوب ہاتھا پائی کی اور چند پولیس والوں کو زخمی کر دیا. اس تصادم میں آپ کی عبا بھی پھٹ گئی. آپ کو مسجد کوفہ سے گرفتار کر لیا گیا اور اسی روز سے مدارس دینیہ میں آپ کی بہادری کا چرچا ہو گیا . (٥ )

یہ کہنا حق با جانب ہو گا کہ نجف اشرف میں ہی سید عارف حسین نے امام خمینی کی ملکوتی شخصیت کا ادراک حاصل کر لیا جبکہ امام خمینی نے  بھی اپنے روحانی فرزند کی معںویت اور للہیت کو کشف کرتے ہوئے انہیں منتخب فرما لیا . اسی لیے جب آپ ١٩٧٣ میں نجف اشرف سے واپس پاکستان آ نے لگے تو امام خمینی نے آپ کو اپنا وکالت نامہ دیا جو ایران کی سرحد پر دوران تلاشی آپ سے چھین لیا گیا.  

علامہ سید عارف حسین کی انقلابی سرگرمیوں کی بدولت ١٩٧٤ میں میں عراقی حکومت نے آپ پر عراق میں داخلے پر پابندی عاید کر دی . جس کی بدولت آپ مزید علم حاصل کرنے کے لیے قم تشریف لے گئے. حوزہ علمیہ چونکہ انقلابی سرگرمیوں کا مرکز تھا ، آپ بھی انقلابی تحریک کے سرگرم رکن بن گئے ، آپ کو امام کے جانثاران سے بھی خصوصی انس پیدا ہو گیا . آپ باقا عدگی سے آقای سید علی خامنہ ای کے خطابات میں جوش و جذبہ سے شرکت فرماتے اور پیغام حق کو دیگر احباب تک پہنچاتے. آپکی مردم شناسی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے حضرت آیتہ الله خامنہ ای کے متعلق قم کے زمانہ طالب علمی کے دور میں ہی فرما دیا "اگر یہ عبد دی وقار ( آیتہ الله خامنہ ای ) زندہ رہے تو اپنی صلاحتیوں کا دنیا بھر میں لوہا منوایں گے"( ٦)

 ان دنوں میں شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک نے ان غیر ایرانی طلبا پر کڑی نظر رکھی ہوئی جو انقلابی سرگرمیوں میں ملوث تھے. ساواک نے آپ کو گرفتار کر کے ایک حلف نامے پر دستخط کروانے کی کوشش کی جس میں ہر قسم کی انقلابی سرگرمیوں میں شامل نہ ہونے کی شرائط درج تھیں . جب آپ کی نظر ان شرائط پر پڑیں تو آپ نے دستخط پر انکار کرتے ہوئے فرمایا " میں اس قسم کی کسی شرط کو قبول نہیں کر کرتا اور نہ ہی میں نے اپنے ابا و اجداد سے مشروط زندگی گزارنے کا درس پڑھا ہے." ( ٧)

قم سے واپس تشریف لانے کے بعد علامہ عارف حسین نے امام خمینی کے پیغام کی حقانیت اور شاہ کے مظالم اور غیر اسلامی اقدار کے متعلق اسلامیان پاکستان کو آگاہ کیا. آپ نے عملا شاہ ایران کے خلاف مظاہرے کیے اور قوم کو صورت حال سے آگاہ فرمایا. آپ کی دیرینہ خواہش تھی کہ پاکستان میں بھی اسلامی انقلاب کی تحریک استعماری اثر و رسوخ کو خس و خاشاک کی طرح اپنے ساتھ بہا لے جائے. آپ فرمایا کرتے تھے " انشاالله پاکستان میں بھی کوئی خمینی اٹھے گا ، جو وہاں کے مسلمان عوام کی تقدیر بدل ڈالے گا."  ( ٨ )

١٩٨٣ میں آپ شیعان پاکستان کی قیادت کے منصب پر فائز ہوئے تو آپ نے افکار امام خمینی کی روشنی میں پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی عملی جدوجہد کا آغاز کر دیا. آپ کو علم تھا کہ عالم اسلام افکار خمینی کے زرئعے امریکہ و دیگر استعماری قوتوں کو شکست دے سکتا ہے اس لیے آپ نے فرمایا " امریکہ ایک بت ہے جسے ایران کے نہتے غیور عوام نے پاؤں کی ٹھوکروں سے پاش پاش کر دیا  ہے . اب امریکہ اور اس کے حواریوں کی سازش ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کو جہاں تک ممکن ہو ، محدود کیا جائے . اور امام خمینی قدس سراہ کے افکار سے مسلمانان عالم کو بے خبر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی ذات گرامی کو متنازعہ بنایا جائے. لہذا میں تمام مسلمانوں بلخصوص نوجوانوں سے درخواست کروں گا کہ وہ عالم اسلام کے حقیقی پیشوا اور مستضعفین جہاں کی امید حضرت امام خمینی کے افکار کو ملک کے چپہ چپہ تک پہنچائیں تاکہ زمانہ حضرت امام خمینی کے افکار سے باخبر ہو کر استعمار کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دے"   ( ٩)

علامہ عارف حسین الحسینی نے اپنے رفیق خاص شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کی پرخلوص، باہمت،باوفا اور باعزم ٹیم کی مدد سے  امام خمینی کا پیغام پاکستان کے کونے کونے تک پہنچایا . آپ نے امام خمینی کا فلسفہ وحدت اور اسلامی بیداری کا پیغام تمام مکا تب فکر کے سامنے رکھا ، امریکہ کی اسلام دشمنی اور سازشوں کو طشت از بام کیا . اور مظلومین جہاں خصوصا فلسطین و کشمیر، افغانستان  کے مسلمانوں کے لیے صدائے حق بلند کی. ساتھ ہی آپ نے پاکستان سے آمریت اور استعما ری اثر و رسوخ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک میں اسلامی جمہوری حکومت کے قیام پر زور دیا.  آپ کے نورانی قلب سے اٹھی صدا حق باد نسیم کا جھونکا بن کر  پاکستان کے چار سو پھیل گئی.ملکی  تاریخ میں پہلی پاکستان کے مسلمان اپنے مسلکی اختلافات بھلا کر اپنے اصل دشمن کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوئے.

 شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے اپنی قیادت کے چار سالہ قلیل مدت میں شیعان پاکستان کو ایک لڑی میں پرونے ، وحدت امت قائم کرنے ، انقلاب اسلامی کا پیغام ملک کےطول عرض میں پھیلانے اور استعماری قوتوں کو للکارنے کا کام بیک وقت انجام دیا .  آپ کی برق رفتار  طوفانی فعالیت سے عالمی استعمار اور اسکے مقامی گماشتوں کی نیندیں حرام ہو گئیں اور ایران کے بعد سرزمین پاکستان پر بھی اسلامی انقلاب کے سورج کا طلوع ہونا نوشتہ دیوار تھا جسے دوست دشمن سب بہ آسانی پڑھ سکتے تھے.  یہی وجہ تھی کہ 5 اگست ١٩٨٨  کی صبح صادق نے شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی شکل ایک اور فرزند علی و بتول کو محراب عبادت میں فزت و رب الکعبه کی صدا بلند کرتے سنا.

 ارْجِعِی إِلى‌ رَبِّكِ راضِیَةً مَرْضِیَّةً  کی صد پر لبیک کہہ کر فرزند خمینی، شیعان پاکستان کے سید و سردار شہید علامہ عارف حسین الحسینی  تو جام شہادت نوش فرما کر   ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیے مگر ملت پاکستان یتیم ہو گئی. جس کی یتیمی کا تیس سالہ سفر اب بھی جاری ہے.

یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا

کھلا ضرور مگر کھل کر مسکرا نہ سکا

تحریر: کاشف علی

حوالہ جات:

١- سفیر نور ، مولف تسلیم رضا خان ، العارف پبلکشنز ، لاہور ، ص (21)

٢- ایضا ، ص (22)

٣ - ایضا ، ص (23)

 ٤- ایضا ، ص (24)

٥ - ایضا ، ص (25)

٦- ایضا ، ص (27)

٧- ایضا ، ص (27)

٨- ایضا ، ص (30)

٩- ایضا ، ص (184)

 

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری