ہم اسرائیل کو  کیوں کر تسلیم کر سکتے ہیں؟


ہم اسرائیل کو  کیوں کر تسلیم کر سکتے ہیں؟

آج سے بہتر سال پہلے آج ہی کے روز اور پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے ٹھیک نو ماہ بعد مشرقِ وسطہ کے قلب میں واقع انبیائے کرام کی سرزمین، ارضِ فلسطین پر شب خون مارا گیا۔

از:  پروفیسر ابو زہرا ساجدی

تسنیم خبررساں ادارہ: امریکہ  اور برطانیہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں  کی مدد سے شدت پسند یہودیوں کہ جن کو صیہونی کہا جاتا ہے کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے  14 مئی 1948 کو ”اسرائیل  نامی ایک غاصب صیہونی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس یہودی ریاست کے قیام سے قبل اور قیام کے بعد بھی  بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ  نے متعدد بار اس کی شدید مخالفت کی ۔ یہ مخالفت ، مخالفت برائے مخالفت نہ تھی بلکہ اس کے پیچھے قائد ِ اعظم کا ایک نظریہ تھا ۔

 آپ جانتے تھے کہ یہ ارضِ فلسطین کے ساتھ ایک ظلم اور زیادتی کے مترادف ہوگا۔ صیہونی ریاست کے قیام سے اس سرزمین کے اصل وارث یعنی فلسطینی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔  ان کے گھر بار ، کاروبار اور حیاتِ زندگی تنگ کر دی جائے گی ،جبکہ بیت المقدس قبلہ اول بھی غاصب صیہونی ریاست کے فوجیوں کے بوٹو ں کی ٹھوکروں میں ہوگا۔ قائدِ اعظم نے ماتھے ران (مہاراشٹر  کا ایک خوصورت پہاڑی علاقہ) میں حکومتِ برطانیہ کو مسلمانانِ پاک و ہند  کی جانب سے اقوامِ عالم کی نمائندگی کرتے ہوئے واضح طور پر  اپنے ایک بیان میں فرمایا تھا کہ ’’اگر برطانیہ اپنے عہد و پیمان سے منحرف ہوا، جو عربوں کے ساتھ صرف انصاف کے ذیل میں آتا ہے تو یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے گہرے محسوسات اور نظریات کے خلاف ہوگا اور یہ مسلمانانِ ہند کے ساتھ کیے جانے والے ان وعدوں کے بھی خلاف ہوگا جن کے تحت جنگ جاری رکھنے کے لیے مسلمانوں کی ہمدردی اور اعانت حاصل کی گئی-“ اس فرمان کے علاوہ کئی ایک خطبات اور بیانات سے اسرائیل کے خلاف  بانی پاکستان کی واضح مخالفت اور نفرت کا اظہار ملتا ہے ۔   قیامِ پاکستان کے بعد بانی پاکستان محمد علی جناح ایک سال  اور  ایک ماہ ہی زندہ رہ پائے۔ زندگی کے  ان آخری 13 مہینوں میں  بابائے قوم نے پاکستان کی  خارجہ پالیسی پر کوئی اہم ہدایت  دی تو وہ  صرف اسرائیل کے  بارے میں ہی تھی۔غاصب اسرائیلی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد قائد اعظم نے ایک پالیسی ساز بیان دیا کہ جس میں آپ نے فرمایا کہ  ’’اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور پاکستان اسے کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ 1947 میں اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بن گریون نے قائداعظم محمد علی جناح  کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے متعلق ٹیلی گرام بھیجا تو اقائدِ اعظم نے  اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ قائد  کے اس رویے نے  استعمار اور ان کے حواریوں کو  واضح پیغام دیا  کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات قائم نہیں کرنا چاہتا۔

یہ بھی ایک تاریخی   حقیقت ہے کہ اس قرہ ارض پر دو ریاستیں ایسی ہیں جو ایک خاص نظریہ کے تحت معرضِ وجود میں آئیں ۔ ایک مسلمانانِ پاک و ہند کی قربانیوں اور زحمتوں کا ثمر  پاکستان اور دوسرا استعمار کی سازشوں کا شاخسانہ غاصب اسرائیل ۔ پاکستان مسلمانانِ ہند کے مطالبے    کے تحت  ایک الگ وطن  کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں وہ اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے تحت اپنی زندگی     کو بسر کر سکیں۔  

غاصب  صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کے لیے صیہونیوں نے دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں لا لاکر آباد کیا، جس کےلیے باقائدہ تحریک چلائی گئی۔ ایک سازش کے تحت  حیلے بہانوں سے فسلطین کی زمینیں خریدی جانے لگیں اور یہاں کے اصل باسیوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا گیا۔  غاصب صیہونی ریاست اپنے قیام سے لیکر آج  تک پاکستان کو واحد اسلامی جوہری ریاست  کے طور پر اپنے وجود کے لیے خطرے کا باعث سمجھتی ہے۔  اسی سبب اسرائیل ہی نے پاکستان کے نیوکلیئر بم کو اسلامی بم قرار دیا  اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات قائم کر کے ہر محاذ پر پاکستان مخالف  سازشوں کے حوالے سے پشت پناہی کرتا رہا ۔  بعض حلقوں کا خیال ہے کہ گذشتہ سال بھارتی جارحیت کے جواب  میں پاکستان نے اس کے جہاں تین طیارے مار گرائے اور ابھی نندن نامی پائلٹ کو  بھی گرفتار کر کے  بھارتی سازش کو بے نقاب کیا وہیں پر سوشل میڈیا کے مطابق  مبینہ طور پر اسرائیلی جنگی طیارہ مارگرایا اور ایک پائلٹ کو بھی حراست میں لیا گیا۔ اسی طرح  پاکستان نے اسرائیل مخالف تنظیموں پی ایل او  اور حماس سے قریبی تعلقات استوار رکھے۔

پاکستان اور اس کے عوام نے ہر دور میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی طبی اور اخلاقی مدد کرتا رہا ہے جبکہ تمام بین الاقوامی فورمز پر بھی مظلوم فسطینیوں کی حمایت اور اسرائیلی ریاست اور اس کی جارحیت کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ متعدد بار خان بہادر امریکہ اپنے لے پالک صیہونی ریاست اسرائیل کی حمایت کے لیے پاکستان پر دباو ڈالتا رہا ہے۔ غاصب صیہونی ریاست کے سابق وزیرِ خارجہ اویگدور لیبر مین  نے پہلی بار اپنا منصب سنبھالتے ہی  پاکستان کو اپنی ریاست کے  خلاف سب سے بڑا اسٹریٹجک خطرہ قرار دیا ۔ ایک روسی روز نامے کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایران کی صورت میں اسرائیل کے لیے ایک ممکنہ جوہری خطرہ موجود ہے، لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان میں  ظہور پزیر مسائل زیادہ اہم ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ خارجہ اویگدور لیبر مین   نے پاکستان اور افغانستان کو نہ صرف اسرائیل بلکہ عالمی نظام کے لیے سنگین  خطرہ قرار دیا۔ پاکستان میں بہت سے دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل ،بھارت کے ساتھ مل کر ہماری جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی منصوبہ  بندی بھی کرتا رہا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت اظہر من الشمس  ہے کہ بیت المقدس اور ارضِ  فلسطین پر غاصبوں کے قبضے کے خلاف اور مظلوم فلسطینیوں کے حوالے سے  بانی پاکستان کی طرح پاکستانی عوام  کے بھی خصوصی جذبات ہیں اور بابائے قوم کے نظریات اور پاکستان کے غیور عوام   کے احساسات و  جذبات  کاخیال پاکستان کی ہر حکومت نے رکھا ہے اور بیرونی دباو کے باوجود غاصب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے اور آئندہ بھی  قائدِ اعظم کے اس نظریے کی حفاظت کی جائے گی کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے جسے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

 

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری