اسرائیل فلسطینی مزاحمت کے سامنے بے بس


اسرائیل فلسطینی مزاحمت کے سامنے بے بس

فلسطین پر اسرائیل کی ناجائز ریاست ک قیام کو ستر برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ان ستر برسوں میں اسرائیل نے عرب ممالک کے ساتھ سنہ1967اور 1973 میں جنگیں لڑی ہیں اور نتیجہ میں عرب ممالک کو پسپائی کا سامنا رہا.

تسنیم خبررساں ادارہ: فلسطین پر اسرائیل کی ناجائز ریاست ک قیام کو ستر برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ان ستر برسوں میں اسرائیل نے عرب ممالک کے ساتھ سنہ1967اور 1973 میں جنگیں لڑی ہیں اور نتیجہ میں عرب ممالک کو پسپائی کا سامنا رہا.

 یہی وہ وقت تھا کہ جب دنیا پر اسرائیل کی طاقت اور ناقابل شکست ہونے کا نفسیاتی دباءو دنیا کے ممالک پر پڑنا شروع ہوا ۔ حقیقت اس وقت دنیا کے سامنے آئی کہ جب سنہ1979ء کے بعد فلسطین میں ایک طرف حماس اور جہاد اسلامی نام کی مزاحمتی تنظی میں سامنے آئیں تو دوسری طرف فلسطین کی سرحد پر واقع لبنان میں حزب اللہ نامی مزاحمتی گروہ نے جنم لیا ۔ البتہ فلسطین میں جہاد اسلامی نام سے مزاحمتی گروہ ان دونوں گروہوں سے قبل بھی فلسطین کی آزادی اور غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے مظالم سے فلسطین کا دفاع کرنے کے لئے سرگرم جہاد تھا ۔

اسرائیل کی طاقت کا طلسم اس وقت بھسم ہونا شرو ع ہوا جب لبنان پر سنہ 1982 سے اسرائیل کا جاری قبضہ سنہ2000ء میں حزب اللہ کے جوانوں کی مزاحمت کے سامنے دم توڑ گیا اور اس طرح لبنان اسرائیل کے ناجائز قبضہ سے مکمل طور پر آزاد ہوا ۔ فلسطین پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل سمیت دنیا میں اسرائیل کی حمایت کرنے والی حکومتوں جن میں امریکہ سرفہرست تھا ان سب کے لئے یہ شکست ایک بہت بڑا جھٹکا تھی جس نے دنیا پر اسرائیل کے تکبر اور گھمنڈ کو خاک میں ملا کر رکھ دیا تھا ۔ خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے لگا ۔ اسرائیل کا بھرم خاک ہو تا رہا ۔ اسرائیل جو عرب ممالک کی زمینوں پر قبضے کیا کرتا تھا اب ذلیل و رسوا ہو کر لبنان سے نکل کھڑا ہوا ۔ تاریخ میں اسرائیل اور اس کے حامیوں کی یہ بہت بڑی شکست ہے ۔

فلسطینی مزاحمت نے پتھروں سے اپنی مزاحمت کا آغاز کیا تھا اور رفتہ رفتہ اس قدرت تک آن پہنچے ہیں کہ آج فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی تحریکوں کے پاس ڈرون اور ایسے میزائل موجود ہیں جو اسرائیل کی حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

اسرائیل کی فلسطینی مزاحمت کے سامنے بے بسی کا ایک اور عملی نمونہ سنہ2006ء جولائی کے مہینہ میں شروع ہونے والے لبنان اسرائیل جنگ ہے کہ جو 33روز جاری رہنے کے بعد اسرائیل کے طے کردہ ہدف یعنی لبنان پر قبضہ اور حزب اللہ کی طرف سے گرفتار کئے گئے دو اسرائیل فوجیوں کی رہائی ، یہ سب نا ممکن رہا اور اسرائیل شکست کھا کر پسپائی اختیار کر گیا ۔ فلسطین مزاحمت نے اسرائیل کو ایک مرتبہ پھر سنہ2008ء میں غزہ کی سرزمین پر بے بس کر دیا کہ جب اسرائیل نے 51روزہ جنگ مسلط رکھی اور اس مرتبہ بھی حماس کے خاتمہ سمیت اپنے ایک فوجی کو آزاد کروانے میں ناکامی کا سامنا رہا ۔

آج غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی حالت یہ ہے کہ غزہ جیسے علاقہ میں کہ جہاں خود صہیونیوں نے 13سال سے محاصرہ کر رکھا ہے ، جہاں انسانی زندگیاں خطرے میں ہیں ، پھر بھی فلسطینی اسلامی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا ہے ۔ گذشتہ مہینوں میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر ہونے والے آخری حملوں کے جواب میں فلسطین کی اسلامی مزاحمت نے بھرپور جواب دیا تھا جس کے نتیجہ یہ نکلا کہ اسرائیل دو گھنٹے بھی فلسطینی مزاحمت کاروں کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہا اور فوری طور پر عقب نشینی اختیار کر گیا ۔

عرب دنیا کے تجزیہ کار جن میں فلسطین سے تعلق رکھنے والے ماہر امور سیاسیات عبد الباری عطوان اپنی متعدد تحریروں میں فلسطینی مزاحمت کے طاقتور ہونے کے راز کو سنہ1979ء میں ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کا ایک شاہکار قرار دیتے ہیں ۔ عبد الباری عطوان کے مطابق ایران نے سنہ1979ء میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جس طرح فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں بشمول حماس اور جہاد اسلامی کو مالی اور مسلح معاونت کی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے ۔ آج یہی وجہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت کارو ں کے پاس جدید میزائل ٹیکنالوجی ہے ، جدید قسم کے ڈرون موجود ہیں ، ایسے ہتھیار موجود ہیں جو اسرائیل کو چند گھنٹوں میں شکست کی طرف لے جاتے ہیں ، ان میزائلوں میں ایران کی طرف سے بنایا جانے والا والفجر میزائل ایک بہترین شاہکار ہے کہ جس نے اسرائیل کی نیندیں اڑا دی ہیں ۔

 

آئی اب حالیہ دنوں کے واقعات کا جائزہ لیتے ہیں ، اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ یکم جولائی کو مقبوضہ مغربی کنارے کے بعض علاقوں پراپنی خود مختاری قائم کرے گا اور یکم جولائی دو ہزار بیس سے غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کے مراحل کا آغاز ہوجائے گا ۔ بعد ازاں دو جولائی کو عالمی ذراءع ابلاغ پر یہ خبریں نشر ہو رہی تھیں کہ اسرائیل نے غرب اردن پر قبضہ کا منصوبہ ملتو ی کر دیا ہے ۔ اس بات کو فلسطینیوں کی فتح قرار دیا جا رہاتھا ۔ البتہ مختلف ماہرین کی مختلف آراء کی روشنی میں یہ عوامی دباءو کے نتیجہ میں ہوا، جبکہ کچھ نے کہا کہ اسرائیل کے اندرونی اختلافات اس بات کا سبب بنے ہیں کہ اسرائیل نے اس معاملہ پر پسپائی اختیار کی ہے ۔ اسی طرح ایک اور عنصر جو اس پوری تحریک میں پایا جاتا ہے وہ فلسطین کی اسلامی مزاحمت کا ہے کہ جس نے غزہ کی پٹی سے صہیونی کالونیوں پر راکٹ حملے کیے ۔ ساتھ ہی فلسطینی مزاحمت کاروں نے سمندر میں میزائلوں کے تجربات کیے ۔ مزاحمت کاروں کی طرف سے سمندر میں متعدد کامیاب میزائل تجربات کیے گئے ۔

فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطین کی اسلامی مزاحمت نے صہیونی دشمن کو میزائل تجربات سے متعدد پیغامات دئیے ہیں ۔ اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے استعماری منصوبوں پرعمل درآمد سے باز آئے ورنہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے میزائل صہیونیوں کے سروں پر برستے رہیں گے ۔ فیلڈ میں کام کرنےوالے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مزاحمت کاروں نے یکم جولائی کو نصف گھنٹے میں 24 میزائل داغے ۔ یہ سب ایک ساتھ چھوڑے گئے ۔ یہ میزائل مغرب سے شمال یا مشرق کی طرف چلائے گئے ۔ یہ پہلا موقع ہے جب فلسطینی مزاحمت کاروں نے اتنے کم وقت میں زیادہ تعداد میں میزائل داغے ۔ ماضی میں عموما ایک سے پانچ تک میزائل تجربات کیے جاتے رہے ہیں مگر اب کی بار صہیونی دشمن کو پیغام دینے کے لیے دو درجن میزائل تجربات کیے گئے ۔

فلسطین کے عسکری امور کے تجزیہ نگار رامی ابوزبیدہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کم وقت میں زیادہ تعداد میں میزائل تجربات میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے صہیونی دشمن کو متعدد پیغامات دیے ہیں ۔ پہلا پیغام یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمتی قوتیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں اور کم وقت میں میزائل حملوں کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ ان تجربات سے فلسطینی مزاحمت کاروں کی دفاعی عسکری طاقت کا اندازہ ہوتا ہے ۔

فلسطین کی مزاحمت میں ڈیٹرنس ایک بنیادی ہتھیار ہے ۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کے پاس بھی یہ ہتھیار ہونا چاہیے ۔ اگرچہ اسلحے کے اعتبار سے فلسطینی اسرائیل کے ہم پلہ نہیں مگر فلسطینیوں کی بڑھتی میزائلصلاحیت اسرائیل کے لیے پریشان کن ہے ۔ فلسطینی مزاحمت کاروں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ صہیونی ریاست کے اندر تک میزائلوں کے ذریعے مار کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں ۔

اب صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے سامنے بالکل بے بس نظر آتا ہے ۔ جہاں فلسطین کی مزاحمت کی جانب سے اسرائیل کے لئے متعدد پیغام موجود ہیں وہاں دنیا میں ہر اس بے ضمیر شخص کے لئے بھی پیغام موجود ہے جو اسرائیل کے ساتھ مسلم دنیا کے تعلقات بنانے کے لئے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں اسرائیل کی ٹیکنالوجی اور طاقت کو بنیاد بناکر مسلم دنیا کو اسرائیل کے ساتھ دوستی کرنے اور فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی ترغیب فراہم کرتاہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ سنہ2020ء کے بعد کی دنیا میں زوال پذیر ہے اور غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے بھی دن گنے جا چکے ہیں اور آزادی و نصرت فلسطین کی مظلوم عوام کا مقدر ہے جو حاصل ہو کر رہے گی ۔

تحریر: صابر ابو مریم

سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان

پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

 

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری