دنیا بھر میں داعش کی نابودی پر ایک نظر/ کیا داعش کی کمر ٹوٹ گئی ہے؟ + تصاویر


دنیا بھر میں داعش کی نابودی پر ایک نظر/ کیا داعش کی کمر ٹوٹ گئی ہے؟ + تصاویر

پاکستانی کالم نگار نے دنیا کے مختلف ممالک میں داعش کی حالیہ پوزیشن کا تذکرہ کرتے ہوئے دہشت گرد گروہ کی نابودی کی نوید سنائی ہے اور کہا ہے کہ داعش کے جنگجو موصل سے زنزنہ لباس میں راہ فرار اختیار کر رہے ہیں جن میں بعض عراق اور افغانستان میں گرفتار بھی کئے جا چکے ہیں۔

خبررساں ادارے تسنیم کو ارسال کئے گئے مقالے میں پاکستانی کالم نگار اور سینیئر صحافی قادرخان افغان نے داعش کی دنیا کے مختلف ممالک میں نابودی کی خوشخبری دی ہے۔ ان کے مقالے کا متن درج ذیل ہے:

داعش ایک خوف و ظلم کی علامت بن کر دنیا میں اپنی بربریت و سفاکیت کے لئے مشہور ہے، گلے خنجروں سے کاٹتے ہوئے داعش کے دہشت گرد اور مزارات مقدسہ و تاریخی مقامات کو تاراج کرنے والے داعش نے اپنی خود ساختہ خلافت کا اعلان کیا اور امت مسلمہ کے خلاف فرعون بن کر سفاکیت کی نئی تاریخ رقم کرنا شروع کی تو تمام اسلامی ممالک میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

اس بات میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ امریکہ نے اپنے مفادات کے لئے داعش کو جنم دیا، اس سے قبل القاعدہ جیسی کئی انتہا پسندوں کا جنم داتا امریکہ ہی رہا ہے۔

بھارت کی جانب سے را کے ذریعے فنڈنگ، ان کے کئی جاسوسوں کا پکڑے جانا اور اس بات کا اعتراف کہ وہ پاکستان میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی کرانا چاہتے تھے، نیز کراچی میں اسلحے کی تاریخ کی سب بڑی کھیپ کا پکڑے جانا بھی ثابت کرتا تھا کہ پاکستان میں خانہ جنگی کے منصوبے پر عمل درآمد جاری تھا۔

شام، عراق، افغانستان کے بعد اب پاکستان میں داعش کی کارروائیاں تشویش ناک تک بڑھ چکی ہیں۔

عراق میں داعش کو شکست ملنے کے بعد داعش کے اہلکاروں کا شام کی جانب فرار ہونا، ان کی بزدلی کی اہم مثال سامنے آئی ہے۔ موصل جو داعش کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، جب وہاں داعش کے خلاف کاروائیاں مربوط انداز میں کی گئیں تو داعش نے راہ فرار اختیار کی۔

داعش نے دنیا بھر میں اپنے کارندوں کے ذریعے بھرتیاں شروع کردیں تھیں، مسلمانوں پر ظلم اور ان کے خلاف ہولناک کاروائیاں سمیت، کسی کی عزت و ناموس محفوظ نہیں رہی تھی۔

داعش کی جانب سے پاکستانی کالم نگار کو دھمکی:

راقم کو داعش کی جانب سے دھمکی آمیز ای میل موصول ہوئی تھیں جس میں داعش کے خلاف حقائق سامنے لانے پر سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی تھی۔

داعش نے لکھا: ہمارے پاس ایسے مختلف ادارے کام کر رہے ہیں جو تمہاری تمام سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اور جان لو الدولۃ الخلافۃ الاسلامیۃ کے ڈیٹا بیس میں تم موجود ہوں اور ہم نے تمہیں مختلف درجوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ آج کے بعد اگر تم اپنی سابقہ روش پر قائم رہے تو ہمارا تم سے وعدہ ہے کہ انشاء اللہ ہم ضرور بالضرور تمہیں ذبح کریں گے، تمہیں اپاہج بنائیں گے اور شدید ترین ذلت سے دوچار کریں گے۔ باذن اللہ۔ اور تم جانتے ہو ہمیں تم سے کیا مطلوب ہے۔ الدولۃ الخلافۃ الاسلامیۃ کو قطعاَ ایک تنظیم کے طور پر پیش مت کرو۔ اس کے خلاف دجال کی چال کا حصہ مت بنو۔ خلافت کے خلاف کسی بھی پروپیگنڈے کا حصہ مت بنو، نہ ہی ایسے کسی پروپیگنڈا کی تشہیر کرو۔ الحمد للہ ہزاروں کی تعداد میں اللہ کے غلام خلافت کے انصار تمہاری اپنی ہی افواج، پولیس، میڈیا سمیت تمام اداروں میں موجود ہیں جو ہم سے رابطے میں ہیں جو خلیفتہ المسلمین کے حکم پر کسی بھی وقت تم پر ٹوٹ سکتے ہیں اور پھر لاکھوں ایسے بھی تو ہیں جو تمہارے ہر ادارے، گلی، محلے میں موجود ہیں ان میں سے کچھ تو رابطے میں ہیں اور کچھ دن رات اسی کوشش میں ہیں۔ اللہ کی قسم ہم تمہارے گھروں تک پہنچ چکے ہوئے ہیں۔ یہ ای میل مجھے abu Huzaifa abuhuzaifa1171@gmail.com :اور abu anas . almuhajir abuam1171@gmail.com کی جانب سے 11.44 رات مورخہ 08 مئی 2015 کو ملی تھیں۔ جب میں روزنامہ ایکسپریس میں کالم نویس تھا اور داعش کی سرگرمیوں کے حقائق کو منظر عام پر لایا تھا۔

عراق: داعش کو اس وقت اپنی پیدائش کی سرزمین میں تمام علاقے کھو دینے کے بعد اپنی خلافت کے مرکز موصل کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ داعش کی بہت سی تیسرے، دوسرے اور پہلے درجے کی قیادت ماری جاچکی ہے، اس وقت داعش کی مرو اور مارو کی طرز پر قائم کردہ حکومت کو عدم حکمت و سیاست نے بالآخر انکے طے شدہ انجام کی طرف دھکیل دیا ہے۔ شام (داعش) کے دہشت گردوں پر اس قدر گھبراہٹ طاری ہوگئی ہے کہ قتل و غارتگری کیلئے خواتین، لڑکیوں اور بچیوں پر ظلم و ستم کرنے والے داعش کے کمانڈر اب عورتوں کے لباس زیب تن کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں تاکہ وہ کردش فوج کے قبضے سے بھاگنے میں کامیاب ہوجائیں اور کرد فوج انہیں خواتین سمجھ کر چھوڑ دیں۔ موصل میں ایسے داعش کے کمانڈر اور داعشیوں کو کرد فوج نے گرفتار کیا ہے جو لڑکیوں کے لباس زیب تن کر کے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ داعش کو اب یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ اس کا قلعہ موصل اب محفوظ نہیں ہے۔ اس لئے داعش کے کمانڈر موقع دیکھ کر خواتین کے کپڑے پہن کر اور ان کے بھیس میں فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہاں لڑکیوں اور خواتین کا لباس پہن کر داعش کے فوجی فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ داعش کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے جس کے سبب داعش کے کمانڈر خواتین کے لباس زیب تن کر کے موصل چھوڑ رہے ہیں لیکن کرد فوج نے ان کو گرفتار بھی کیا ہے۔

شام: روس نے تیس ستمبر دو ہزار پندرہ سے شام کے صدر بشار اسد کی درخواست پر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے مقامی فورسز کی مدد کے تناظر میں اس ملک میں داعش کے خلاف فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ روس کے بھرپور حملوں کی وجہ سے شام میں جنگجو گروہوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور ان کی پوزیشن بری طرح کمزور ہوئی ہے۔ اسی بنا پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان گروہوں کو مزید نیا فوجی سازوسامان بھیجنے کا اقدام کیا ہے۔ امریکہ نے اپنے اس اقدام کا جواز پیش کرنے کے لیے دعویٰ کیا ہے کہ یہ گروہ ان ہتھیاروں کو داعش کے خلاف استعمال کرے گا لیکن عملا ایسا کہیں نظر نہیں آیا۔ اس وقت عراق سے شکست خوردہ داعشیوں کو شام فرار ہونے کے علاوہ کوئی اور حل نظر نہیں آرہا اور عراق میں جاری اس تنظیم کے خلاف آپریشن میں بھی اس وقت موصل، جو کہ داعش کا آخری مضبوط گڑھ ہے، پر تین اطراف سے تو بھرپور حملہ ہے لیکن ایک سمت جو بجانب شام بنتی ہے، جو خالی چھوڑا گیا ہے۔ جبکہ شام میں داعش کو مرحباء کہنے والے پہلے ہی بہت سخت حالات سے دوچار ہیں۔

لیبیا: دنیا میں سب سے زیادہ داعش کے کنٹرول والے علاقوں میں لیبیا بھی سرفہرست ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ چند دن پہلے داعش کی پوری ولایت صرف 800 میٹر کے دائرے میں محدود ہو کر گئی تھی اور ہزاروں جنگجوؤں میں سے صرف چند سو باقی تھے۔ جب کہ دو روز قبل تازہ صورتحال کے مطابق، صرف دو سے تین عمارتوں میں خلافت کے سپاہی گھرے، اپنے انجام کے منتظر ہیں۔

نائجیریا: نائجیریا میں بوکو حرامیوں کی بھی الٹی گنتی شروع ہے۔ دو دھڑے بن چکے ہیں اور دونوں خود کو خلافت کا وفادار قرار دے کر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے پر لطف کھیل میں مشغول ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جن علاقوں میں بوکو حرامیوں کا کنٹرول تھا ابھی چھن چکے اور انکے بہت سے روؤس آپسی لڑائی میں ہی مردار ہو چکے ہیں۔

افغانستان: اس وقت داعش کی ولایت خراسان کو بھی اپنی بقاء کا خطرہ ننگی تلوار کی طرح سر محسوس ہو رہا ہے۔ والی خراسان سمیت قیادت ہلاک ہوچکی ہے اور ننگرہار جو کہ داعش کا افغانستان میں مرکز ہے، اس وقت داعش کو مزید قبول کرنے سے قاصر نظر آرہا ہے، جس کے پیش نظر داعش کے جنگجو اپنی بقاء کے لئے نئے علاقوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں انہیں امارت اسلامی افغانستان اور افغان فورسز کے عتاب کا سامنا ہے۔

داعش ولایت خراسان کے نام سے بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔

جنوری 2015 میں پاکستان اور افغانستان میں دہشت گرد گروہ داعش نے پہلی ویڈیو جاری کی تھی جس میں پاکستانی شدت پسندوں کو بھی دیکھا جا سکتا تھا۔

واضح رہے کہ خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی شدت پسند تنظیم افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ضلع اچین میں ایک عرصے سے فعال ہیں اور وہاں سے افغانستان کے دوسرے علاقوں میں شدت پسند واقعات کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے جماعت الحرار، شہریار محسود، قاری ادریس گروپ، طمانچی ملا، مولوی فقیر اور طارق گروپ کے سینکڑوں شدت پسند داعش سے منسلک ہوچکے ہیں۔

بعض ذرائع ابلاغ نے رپورٹ شائع کی تھی کہ افغانستان کے لیے روس کے خصوصی ایلچی ضمیر کابلوف نے کہا تھا کہ افغانستان میں مشروطہ داعش کے روک تھام کے متعلق امارت اسلامیہ افغانستان (افغان طالبان کی جانب سے دیا گیا نام) سے گفتگو کی ہے اور یا اس بارے میں رابطہ ہوا ہے۔ لیکن افغان طالبان نے سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ وطن عزیز سے امریکی قبضے کو چھڑوانے کی خاطر خطے کے متعدد ممالک سے رابطہ کیا ہے اور کررہا ہے اور یہ ہمارا جائز حق ہے۔ تاہم نام نہاد داعش کے خلاف ہمیں کسی کے تعاون کا ضرورت نہیں ہے اور ہم نے اس بارے میں کسی سے رابطہ کیا ہے اور نہ ہی بات چیت کی ہے۔

افغانستان میں مشروطہ داعش کے نام سے بعض افراد ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور ملکی و غیرملکی خفیہ ادارے اپنے مذموم مقاصد اور قبضے کو طول دینے کی غرض سے اس کا حمایت اور تعاون کریں۔ یہ رجحان افغان عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ افغان طالبان نے اپنی عوام اور حقیقی نمائندے کے طور پر کافی حد تک مذکورہ خطرہ نامی منصوبے کو ختم کیا ہے اور اب ملک کے 34 صوبوں میں سے صرف ایک صوبے کے ایک کونے میں موجود ہیں، جو قابل تشویش نہیں ہے۔

پاکستان: پاکستان میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ کے دوران آئی بی کے سربراہ نے بتایا ہے کہ مُلک سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا ہے۔ تحریک طالبان کی کمر ٹوٹ گئی اور عالمی تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا نیٹ ورک بھی پکڑا گیا ہے تاہم مُلک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے میں 10 سال تک لگ سکتے ہیں کہ یہاں داعش کو مُلک کے اندر سے نہ صرف تحریک طالبان بلکہ القاعدہ کے بچے کھچے افراد کی بھی حمایت مل رہی ہے۔

اس وقت جبکہ پنجاب کے متعدد شہروں میں بعض تکفیری دہشتگرد گروہوں کے داعش سے روابط اور دہشت گردی کی کچھ حالیہ وارداتوں میں اسکے ملوث ہونے کی بھی تصدیق ہو چکی ہے، جیسا کہ آئی بی چیف نے صفورا گوٹھ کراچی کی دہشت گردی میں داعش کے ملوث ہونے کا عندیہ دیا ہے تو اس تنظیم کو پھلنے پھولنے کا موقع ملنے سے پہلے ہی جڑ سے اکھاڑنا ہماری ترجیح اول ہونی چاہیے۔

اس سے قبل سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے نہ جانے کس حکمت عملی کے تحت پاکستان میں داعش کے وجود سے انکار کیا جاتا رہا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان نے بتایا کہ 2013 میں دہشت گردی کے 208، 2014 میں 149 جب کہ 2015 میں 141 واقعات ہوئے۔

آئی بی کو تعلیمی اداروں پر حملوں کی اطلاعات تھیں لیکن باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔

گزشتہ 6 ماہ کے دوران آئی بی نے دہشت گردی کے 11 واقعات کی پیشگی اطلاع دی اور 581 اہم دہشت گرد گرفتار کرائے جب کہ 84 دہشت گرد گرفتاری کی کوشش میں مارے گئے۔

آفتاب سلطان نے مزید بتایا کہ سپاہ صحابہ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کے آپس میں روابط ہیں، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد غیر ملکی نہیں بلکہ مقامی ہیں، آپریشن ضرب عضب میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ عمر خلیفہ گروپ کے دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

آئی بی ہی نے بشیر بلور، چودھری اسلم، ڈاکٹر سومرو، مقبول باقر، مینہ بازار دہشتگردی کے ملزمان گرفتارکرائے، واہگہ بارڈر پر دہشت گردی میں ملوث 9 میں سے 6 ملزمان کو گرفتارکر لیا گیا ہے جب کہ 3 افغانستان بھاگ گئے ہیں۔

داعش اور دیگر تنظیمیں سوشل میڈیا کو استعمال کررہی ہیں۔ آئی بی نے پاکستان میں داعش کا نیٹ ورک پکڑ لیا ہے۔ آرمی پبلک اسکول کی تحقیقات پاک فوج اور پولیس کررہی ہے۔

جبکہ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان کی بریفنگ سے ثابت ہوتا ہے کہ صفورا گوٹھ اور کوئٹہ میں داعش کی جانب سے بنے گروہ لشکر جھنگوی العالمی کے ملوث ہونے کے شواہد کے بعد پاکستان میں گو کہ مضبوط نہیں ہے لیکن نیٹ ورک ضرور موجود ہے۔

یمن: یمن میں داعش روز اول سے ہی کمزور ہے اور کسی بڑے حملے اور علاقے پر کنٹرول کی سرے سے اہلیت ہی نہیں رکھتی۔

بنگلہ دیش: جو افراد داعش کو بنگلہ دیش سے میسر آئے وہ یا تو مارے جا چکے ہیں یا پھر جان بچا کر بھاگ رہے ہیں. بنگلہ دیش کی داعش کی قیادت ماری جاچکی ہے۔

عالم کفر: پوری دنیا میں کسی بھی کافر ملک میں داعش کی موجودگی ریکارڈ پر آہی نہیں سکی اور داعش کا عقیدہ و منہج اس کاعکاس ہے. بس لا حاصل اور غیر اہم چند لون لولف حملوں کا ہی ریکارڈ ملتا ہے۔ جبکہ پاکستان، سعودیہ اور خلیجی ممالک سمیت دیگر مسلمان ممالک اس گروہ خوارج سے تقریبا پاک اور محفوظ ہی نظر آرہے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی دیوانہ خود کو پھاڑ لے، کسی نہتے رشتے دار یا اہلکار کو نشانہ بنا لیتا ہے مگر بڑی اور منظم کارروائیوں کی کوئی اہلیت اور صلاحیت نہیں۔

داعش ایک بہت بڑا فتنہ ہے جو عالم اسلام میں ابھرتی ہوئی طاقتوں کو ایک منظم طریقے سے نشانہ بناتی رہی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ داعش کی کمر عراق اور شام میں ٹوٹ چکی ہے اس لئے اس نے اب افغانستان کی جانب رخ کرلیا ہے اور پاکستان میں کالعدم جماعتوں و تنظیموں کے اراکین کو شامل کرکے اپنی سفاکیت ان ممالک کے عوام پر مسلط کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔

اس سلسلے میں ہمیں اپنے ارد گرد کے ماحول اور کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورک پر گہری نظر رکھنا ہوگی کیونکہ ہماری ذرا سی لاپرواہی کسی بھی مسلک کیلئے تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری