آل سعود کا ایران کے خلاف منفی پراپگنڈہ کے لئےسالانہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کا انکشاف


آل سعود کا ایران کے خلاف منفی پراپگنڈہ کے لئےسالانہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کا انکشاف

پاکستان میں بعض سادہ لوح افراد "ایران انٹرنیشنل ٹی وی چینل" کو اسلامی جمہوریہ ایران کا چینل تصور کرتے ہیں جبکہ یہ سعودی حکومت کے تحت چلتا ہے

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اقتدار میں آتے ہی اس ملک میں میڈیا کی سرگرمیاں پہلے سے زیادہ وسیع ہوگئی ہیں اور سعودی حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران، نظام ولایت فقیہ اور اسلامی مزاحمتی سوچ کے خلاف نفسیاتی میڈیا وار کو آگے بڑھانے کے لئے اپنے خزانے کے منہ کھول رکھے ہیں۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، سعودی حکام گزشتہ کئی سالوں سے امریکا اور اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسلامی ممالک خاص کر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اربوں ڈالر خرچ کررہے ہیں۔

محمد بن سلمان نے اقتدار میں آتے ہی امریکی اشاروں پر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف منفی پراپگنڈہ کا آغاز کیا اور اس وقت دنیا بھر میں مختلف ذرائع ابلاغ نے ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ان تمام ذرائع ابلاغ کا خرچ سعودی حکام برداشت کررہے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف آل سعود کے پیسوں سے چلنے والے کچھ خبررساں اداروں کی تفصیل:

آل سعود کی جھوٹی میڈیا مشین: ایم بی سی

مشرق وسطی میں ایران کے خلاف منظم انداز میں منفی پراپگنڈہ کرنے والے خبر رساں اداروں میں سے ایک ایم بی سی''MBC'' ہے۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والی محقق «مرزوق سارہ» نے''ایم بی سی'' نیٹ ورک کو امریکی سامراجی ہتھیار قرار دیتے ہوئے لکھا کہ اس کا مقصد عرب دنیا میں مغربی ثقافت اور اسلوب کو فروغ دینا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک کا آغاز 18 ستمبر 1991 کو کیا گیا تھا، جس میں ابتدائی  طور پر300 ملین سرمایہ کاری کی گئی   اور اس کا سالانہ بجٹ 60 ملین ڈالر ہے۔

''ایم بی سی'' ویب سائٹ کے مطابق، اس ادارے کے  18 ٹیلیویژن چینلز (بشمول العربیہ اور الحدث) ، دو ریڈیو اسٹیشن اور متعدد آن لائن سائٹس کام کررہی ہیں۔

''ایم بی سی'' کے بانی «ولید بن ابراهیم» نامی سعودی شہزادے ہیں،  ابتدا میں ایم بی سی ایک غیرسیاسی نیٹ ورک کے طور پرکام کررہا تھا لیکن آہستہ آہستہ سیاسی رنگ میں رنگتا چلا گیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا اس ادارے کا اہم مشن بن گیا۔

 اس ادارے نے سال 2008 میں اعلان کیا کہ دنیا بھرمیں موجود ایرانی شہریوں کے لئے فارسی زبان میں ''ایم بی سی پرشیا'' نامی نیٹ ورک کا آغاز کیا گیا ہے۔ کچھ عرصے بعد ادارہ غیرفعال ہوا اور سال 2018 میں ایک مرتبہ پھر کام کرنا شروع کردیا۔ اس ادارے کا اصل مقصد خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی کی پالیسیوں کو براہ راست چیلنج کرکے عوام کے ذہنوں میں الجھنیں اور انتشار پیدا کرنا ہے۔

العربیہ نیٹ ورک

اس نیٹ ورک کا مرکزی دفتر دبئی میڈیا سٹی میں ہے۔ یہ نیٹ ورک 300 ملین امریکی ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری کے ساتھ 3 مارچ 2003 کو شروع کیا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ العربیہ نیٹ ورک میں سرمایہ کاری کرنے والے بھی ایم بی سی نیٹ ورک کے مالک ولید بن ابراهیم ہیں۔ اگرچہ یہ بات مشہور ہے کہ العربیہ، الجزیرہ کے مقابلے میں بنایا گیا ہے لیکن اس کا اصل مقصد اور ہدف اسلامی جمہوریہ ایران ہی ہے، دنیا بھرمیں ایران کےخلاف منفی پراپگنڈہ کرنا اس ادارے کے اصلی اہداف میں سے ایک ہے اور یہ ادارہ پوری قوت کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف منفی اور من گھڑت خبریں چلانے میں دن رات مصروف ہے۔

العربیہ نیٹ ورک کے سالانہ بجٹ کے بارے میں تفصیلات موجود نہیں ہیں تاہم ''فارن پالیسی'' نامی میگزین نے 2012 کی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ سال 2010 میں الجزیرہ نیٹ ورک کا سالانہ بجٹ650 ملین ڈالر جبکہ العربیہ کا سالانہ بجٹ سینکڑوں ملین ڈالر ہے۔

 

 

ایران انٹرنیشنل

پاکستان میں بعض سادہ لوح افراد ایران انٹرنیشنل کو اسلامی جمہوریہ ایران کا خبررساں ادارہ تصور کرتے ہیں اور ایران مخالف نیٹ ورک سے خبریں ایک دوسرے کو ارسال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

جب کہ سعودی حکام نے اس ادارے کو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایک خاص مقصد کے تحت بنایا ہے۔

واضح رہے کہ ایران انٹرنیشنل ٹیلیویژن چینل ہے جو مئی 2017 میں ایرانی صدارتی انتخابات سے قبل شروع ہوا تھا۔ اس نیٹ ورک نے ''من و تو'' اور ''بی بی سی'' فارسی جیسے دوسرے سیٹلائٹ نیٹ ورکز کے ایجنٹوں کو بھی ایران کے خلاف منفی پراپگنڈہ کے لئے بھاری رقوم کے عوض اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔

روزنامہ دی گارڈین اور وال اسٹریٹ جرنل نے اطلاع دی ہے کہ اس ٹی وی چینل کو سعودی حکومت کے ذریعہ بالواسطہ فنڈز فراہم کیے جارہے ہیں۔

اس ٹی وی چینل کا مرکزی دفتر مغربی لندن کے علاقے ''چیزوک'' میں ہے۔ روزنامہ گارڈین نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس  چینل کا بجٹ تقریبا 250 ملین ڈالر ہے جس کی مالی معاونت سعودی حکومت فراہم کر رہی ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک کی مالکیت واضح نہیں ہے اور اسے صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔  بظاہر اس چینل کی مالک وولنٹ میڈیا نامی ایک برطانوی کمپنی ہے اور اس چینل کو ڈی ایم اے میڈیا نامی ایک اور کمپنی چلاتی ہے جس کے دفاتر لندن، واشنگٹن، پیرس، استنبول اور کابل میں ہیں۔  گارڈین اخبار نے پہلی بار اکتوبر 2018 میں یہ اطلاع دی تھی کہ دونوں کمپنیوں کے مالک ایک سعودی نژاد برطانوی شہری "عادل عبد الکریم" ہیں جن کے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔

اس نیٹ ورک کی تشکیل میں پس پردہ ایک اور چہرے کی بات کی جارہی ہے۔ برطانیہ میں کمپنیوں کی رجسٹریشن آرگنائزیشن سے حاصل کردہ دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ '' وولنٹ میڈیا " نامی کمپنی کا مالک ''عادل عبدلکریم''  نہیں ہے؛ بلکہ "فہد ابراہیم الدغیثر" نامی شخص ہے جو ایران کے ٹکڑے کرنے کے عزائم رکھتے ہیں اور صوبہ خوزستان کوایران سے الگ کرنے کے حامی بھی ہیں۔

خیال رہے کہ فہد ابراہیم الدغیثر نے گزشتہ سال صوبہ خوزستان کے مرکزی شہر اہواز میں دشت گردوں کی جانب سے سپاہ پاسداران پر ہونے والے حملوں کی بھرپور حمایت کی  تھی۔ ان حملوں میں 29 سے ذائد افراد شہید ہوگئے تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

سب سے زیادہ دیکھی گئی پاکستان خبریں
اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری